بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3627دن مکمل ہوگئے۔ کراچی سے سیاسی کارکن لعل محمد بلوچ، دیدگ بلوچ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، لاپتہ افراد کے لواحقین میں زیادہ تعداد خوتین و بچوں کی شامل ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ستر سال کی رفاقت میں ہزاروں بلوچ افراد کی مسخ شدہ لاشیں مختلف علاقوں کے ویرانوں میں گدھ اور کوؤں کی خوراک بنانے کی غرض سے پھینک دیئے گئے ہیں۔ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں میں ہزاروں سیاسی شعور رکھنے والے طالب علموں، ڈاکٹروں، وکلاء، صحافیوں، تاجروں اور اساتذہ کرام سمیت دیگر معزز شہریوں کو اپنی اذیت گاہوں میں رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ہر روز فوجی آپریشن کی جارہی ہے جس سے ہزاروں بلوچ شہید ہونے کے ساتھ لاکھوں افراد بلوچستان چھوڑنے پر مجبور ہوکر دیگر ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ مہاجرین بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریاستی پشت پناہی میں چلنے والی ڈیتھ اسکواڈ گروپوں نے ظلم کا بازار لگا رکھا ہے، ڈیرہ بگٹی گذشتہ دنوں سے ڈیتھ اسکواڈ کے افراد سرے عام لوگوں کو اغواء اور قتل کررہے ہیں اور بلکل یہی صورتحال گذشتہ سالوں میں خضدار سمیت بلوچستان دیکھنے میں آئی تھی جہاں ڈیتھ اسکواڈ گروپوں کو سرے عام لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان ستر کی دہائی سے دیگر صوبوں اور خصوصاً پنجاب سمیت دیگر ممالک سے لوگوں کی بڑی تعداد کو بلوچستان میں لاکر آبادکاری کررہا ہے تاکہ بلوچ کواقلیت میں تبدیل کیا جاسکے اور ان افراد کو بلوچ عوام سے کئی گناہ بڑھ کر شہری حقوق حاصل ہیں۔
دریں اثناء احتجاجی کیمپ میں موجود 21مئی 2018سے جبری طور پر لاپتہ عبدالحئی کرد اور09جون2018سے لاپتہ علی احمد کرد اور دیگر لاپتہ افرادکے لواحقین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
لواحقین نے اپنے پیاروں کے بازیابی کی گزارش کرتے ہوئے اپنا مطالبہ دہرایا کہ ان کے پیاروں کے عدالتوں میں پیش کرکے ملکی قوانین کے تحت سزا دی جائے۔