کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

131

لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3633 دن مکمل ہوگئے۔

بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ وائس فار بلوچ پرسنز کے قیادت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری ہے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی میڈیا کا رویہ بھی کسی سے پیچھے نہیں اگر کوئی بلوچوں کی مظلومیت کے بارے لب کشائی کرے تو وہ غنڈوں کے طرح آستین چڑھاتے ہیں اور میڈیا کا لب وہ لہجہ کرخت ہوجاتی ہے ان کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ بلوچ اور بلوچستان کے بارے کتنی ہمدردی رکھتے ہیں۔ پاکستان کی فورسز اور دوسرے ادارے جھوٹ بول بول کے تھک چکے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہی ادارے ماضی میں دنیا کو گمراہ کرنے کے خاطر تک و دو میں رہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے بلوچ خامخواہ واویلا کررہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آرمی بلوچستان میں آپریشنوں کی ہمیشہ تردید کرتی رہی ہے کہتے ہیں نا ہم نے کبھی آپریش کی ہے نا بمباری، پاکستانی ریاست کو سولو کارٹ انجیکشن دینے والے اداروں کے علاوہ سپریم کورٹ بھی متحرک ہوئی ہے آپ کو یاد ہوگا چیف جسٹس کو اسلام آباد میں پولیس اور خفیہ ادارے والے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے رہے ہیں پوری دنیا نے یہ دیکھا، سپریم کورٹ کا مقصد بلوچ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ٹیم کے اُس دورے کے اہمیت کو کم کرنا تھا جو بلوچ انسانی حقوق کے بارے فکر مند تھے۔

کیمپ میں موجود لاپتہ عبدالحئی کرد کے ہمشیرہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی عبدالحئی کرد کو 21 مئی 2018 کو فورسز نے جبری طور پر گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے جس کے بعد سے میرے بھائی کا کوئی خبر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی آئین اور قانون ہمیں یہ حق دیتا ہے کہ ہم عدالتوں میں اپیل کرسکے اپنے بے گناہی ثابت کرکے اداروں سے سوال کریں ہمارا بھائی کہاں ہے اور کس گناہ کے پاداش میں اسے لاپتہ کردیا گیا ہے جس آئین کا حلف لیکر یہ حکمران بنتے ہیں اس آئین کے پاسداری کرتے ہوئے لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے کے بجائے عدالتوں میں پیش کرکے ہمیں ہماری گناہ بتایا جاہے۔