دی بلوچستان پوسٹ نمائندے کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا، مظاہرے کی کال وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے دی تھی جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے احتجاج میں شرکت کی۔
لاپتہ افراد کے لواحقین ریلی کی شکل میں مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب کوئٹہ پہنچے ۔
ریلی میں شامل لاپتہ افراد کے تصاویر ہاتھوں میں اٹھائے مظاہرین نعرے لگاتے رہے جبکہ اس سے قبل بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
حاجی لشکری نے کہا کہ آج پورے پاکستان میں عید منایا جارہا ہے اور گذشتہ روز لوگ آسمان کی جانب دیکھ کر چاند کو تلاش کررہے تھے مگر بے بسی یہ ہے کہ پریس کلب کے سامنے فٹ پات پر وہ لوگ بیٹھے ہیں جن کے گھروں کے تارے کئی عرصے سے لاپتہ ہے۔
انہوں نے کہا میں یہاں آیا ہوں تاکہ ہمارے ماں بہنوں اور ماما قدیر کے ساتھ چند لمحے گزاروں چونکہ ہم عید کی خوشیاں ان کے ساتھ نہیں مناسکتے ہیں کیونکہ ان کے گھر کی خوشیاں جن افراد کے ساتھ وابستہ ہیں وہ کئی سالوں سے لاپتہ ہے ہم اس لیے یہاں آئے ہیں کہ ان لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرسکے۔
لشکری رئیسانی نے کہا کہ یہاں بیٹھے لوگ یا جو پارٹیاں کسی بھی خوف سے بالاتر ہوکر لاپتہ افراد کے مسئلے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھاتے ہیں، ایک مطالبہ کررہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق ان لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اگر ان میں سے کسی شخص پر کوئی کیس ہے تو اس کو عدالت میں پیش کریں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ کون مجرم ہے کون نہیں، مگر یہاں ایک مشکوک عمل جاری ہے، میں نے آج تک یہ نہیں سنا ہے کہ کسی لاپتہ شخص کو عدالت میں پیش کرکے اس پر کیس چلایا گیا لیکن ہمیں یہ پتہ ہے کہ لاپتہ افراد میں سے کچھ کو شہید کرکے ان کی لاشوں کو دفنایا گیا ہے جس سے ریاست کا مشکوک عمل عیاں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا میں خود آئینی اصلاتی کمیٹی کا ممبر تھا، ہم اتفاق رائے سے پاکستان کے آئین میں اصلاحات لے آئیں جس کو اٹھارویں ترمیم کا نام دیا گیا اور اس میں بنیادی حقوق کے بھی آرٹیکل شامل ہے آج میں اسی وجہ سے آیا ہوں کہ جس آئین پر پاکستان کے منتخب نمائندوں سمیت میرے دستخط ہے اس آئین کو روندا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا میں بلوچستان کے ان نام نہاد معتبرین سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جب کوئی ریاستی تہوار آتا ہے وہ لوگ اپنا نام چمکانے یا کسی کو خوش کرنے اور کسی عہدے پر آنے کیلئے شاٹ کٹ راستہ اختیار کرکے اس تہوار کو منانے کیلئے ریلیاں نکالتے ہیں، میں ان معتبرین سے کہنا چاہتا ہوں کہ پریس کلب کے سامنے اس فٹ پاتھ پر دس سال سے احتجاج پر بیٹھے افراد پر بھی نظر ڈالیں۔ ان معتبرین کو اپنے ضمیر کے عدالتوں میں خود پیش ہونا چاہیئے۔
بعد ازاں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں شریک بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دس سالوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری ہے اور ہر سال عید کے روز لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ عید تک جتنے لاپتہ افراد ہے بازیاب کیئے جائینگے لیکن کچھ لاپتہ افراد بازیاب ہوچکے ہیں اور اب بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں جن میں ایسے افراد بھی شامل ہے جو دس سے پندرہ سال گزرنے کے باوجود تاحال لاپتہ ہیں جبکہ بازیاب ہونے والے افراد بھی تشدد کے باعث بدترین حالت میں ہے جن میں سے کچھ اپنی ذہنی توازن کھوں چکے ہیں اور ان میں سے چند نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔
بی بی گل بلوچ نے کہا کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے جہاں ایک طرف لوگ بازیاب ہورہے ہیں دوسری جانب لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے، مئی کے مہینے میں کئی بلوچ طالب علموں کو لاپتہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا جبری گمشدگی سے متاثرہ بلوچ قوم عید کے دن بھی پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں جو حکمرانوں کے لئے باعث شرم ہے۔بلوچستان کی یہ بے بس مائیں اور لاچار بہنیں اور معصوم بچے عید کے دن کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے انکی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی بلوچستان میں کارروائیاں پوری شدت کے ساتھ جارہی ہیں۔ لوگوں کی جبری گمشدگی میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے جنہیں ان کے تعلیمی اداروں کے اندر یا دوران سفر اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا بلوچستان حکومت کی بار بار یقین دہانی کے باوجود بلوچستان میں ماورائے عدالت گرفتاری اب بھی جاری ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے اور حکومت یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ لاپتہ افراد بازیاب ہورہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر دو افراد بازیاب ہوتے ہیں تو سیکیورٹی فورسز مزید دس لوگوں کو لاپتہ کردیتی ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں خاصی پریشانی اور خوف کی صورتحال جنم لی چکی ہے جس کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں شریک لاپتہ امتیاز احمد لہڑی کی والدہ بیٹے کے عید کے لیے خریدیں گئے چیزوں کیساتھ آئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے بیٹے کیلئے ہر سال عید کے موقعے پر نئے کپڑے، بلوچی چوٹ، چادر، گھڑی اور دیگر چیزیں خرید کر رکھتی ہوں کہ شاید میرا بیٹا عید کی خوشیاں ہمارے ساتھ منائے۔
انسانی حقوق کے کارکن حوران بلوچ نے کہا کہ امتیاز لہڑی کے گھر والوں کی طرح دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین گھروں بھی عید کے دن سوگ کا سماں ہے۔ لوگ اپنے پیاروں کی راہ دیکھتے ہیں جن کے واپس آنے سے ہی ان کی گھر کی خوشیاں واپس آسکتی ہے۔