بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3623دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء میر عبدالغفار قمبرانی، شفیع محمد اور بی ایس او کے سابقہ چیئرمین مہیم خان بلوچ اور دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر بدنامی کے علاوہ پاکستانی مقتدرہ کو اندرونی طور پر بھی تنقید اور بلوچستان کے مسائل بے رحمانہ طاقت کی بجائے پر امن ذرائع سے حل کرنے کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پنجاب سمیت پاکستان کے بعض لبرل اور دانشور حلقے یہ جان گئے ہیں کہ بلوچ قوم اپنی پر امن جدوجہد سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں چونکہ لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے بلوچ قوم میں پاکستانی فورسز سمیت تمام ریاستی اداروں کے خلاف نفرت وسعت اور شدت اختیار کررہی ہے۔لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ ہے کہ پاکستان اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے مطابق اپنے ہی قائم کردہ عدلیہ کے سامنے لاپتہ افراد کو پیش کیا جائے اورجرم ثابت ہونے پر ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔