میڈیکل کے طلبا، بھوک ہڑتال پر
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ستر سالوں کا احساسِ محرومی، غربت، بھوک، افلاس، میڈیا کی عدم توجگی کا قصہ یک طرفہ۔ ان ہی دنوں میں بلوچستان کو تین میڈیکل کالجز نصیب ہوتے ہیں، یہ کسی بیش بہا قیمتی تحفے سے کم نہیں۔ بلوچستان کی قسمت میں ہمیشہ رونا دھونا رہا ہے۔ تاریخ کے پنوں میں ستر سال کی بھوک، افلاس اور مسائل نقش ہیں۔ کون ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہا، کون مسائل بڑھاتا رہا، ان کو کسی وقت میں آنے والی نسل پنوں سے ڈھونڈ کر اس کا ذکر کرتی رہے گی۔
بلوچستان میں اجتماعی مسائل زیادہ ہیں، ان کو حل کرنے والے کم۔ اسمبلیوں کے تخت پر بیٹھے عوامی نمائندے تنخواہ دار ممبران اپنے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے فالورز بڑھانے کی خاطر اسمبیلوں کے فلور پہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہمارے فالورز اتنے تمہارے اتنے۔ میں سوچتا ہوں سقراط اگر زہر کا پیالہ نوش نہ کرتا آیا وہ آج کے ان دیوتاؤں کے لیے جہاد کا اعلان کرتا۔
بہرحال، اس وقت کوئٹہ پریس کلب میں تین کیمپوں میں ایک کیمپ لاپتہ افراد کے لواحقین کا ہے۔ کم و بیش 10 سالوں سے قائم ہے۔ دوسرا بیروزگار فارماسسٹ کا، تیسرا طلبا کا یہاں اور بھی کیمپ لگا ہے۔
یہ تیسرا کیمپ تین میڈیکل کالجز کے طلبا کا ہے۔ مکران، لورالائی، جھالاوان کے طلبا کا ہے، جہاں طلبا و طالبات کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ ان کالجز میں ایڈمیشن کے باوجود ان کے رزلٹ لسٹ آویزان نہیں ہو سکی۔ ان کے ساتھ بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا بھی تھے، جو پچھلے 5 مہینے سے کلاسوں میں ہیں مگر یہ طلبا کلاسوں کے بجائے فٹ پاتھوں پر لگے بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیھٹے ہیں۔ ان طلبا کا کہنا ہے ہم نے اپنے حق کی خاطر تمام دروازے کھٹکھٹائے، مجبور ہو کر پریس کلب کے سامنے میڈیا کی زینت بننے کی خاطر بیٹھ گئے۔
تینوں میڈیکل کالجز میں گذشتہ سال ایک سیشن کلاسسز لے رہا ہے۔ کالج فنکشنل ہونے کے باوجود اس سال پاس ہونے والے طلباء کا رزلٹ روکا گیا ہے۔ یہ کسی ظلم سے کم نہیں۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ، قانونی ادارے اس طرح ستم کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ باقی دنیا نے بنیادی تعلیم سے لے کر کالجز، یونیورسٹیز تک تعلیم مفت کی ہے، مگر ہمارے ہاں الٹے نظام نے طلبا کو ذہنی اذیت کا شکار بنا دیا ہے۔ جن بچوں کو تعلیم حاصل کرنا ہے، انہیں زبردستی زندہ باد مردہ باد سکھایا جا رہا ہے۔ دنیا کے نظام نے ترقی کی، وہ مریخ تک پہنچنے کے دعویدار ہیں، اور ہمارے نظام میں زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔
یہ بچے پڑھنا چاہتے ہیں، انہیں پڑھنے کا موقع دیا جائے۔ انہیں گلیوں، روڈوں میں گھسیٹنے کے بجائے کالجوں میں بھیجا جائے۔ ان ہی سے آپ کا کل ہے، ان ہی سے آپ کی روشنی ہے، ان ہی سے آپ ہو، یہی آپ کا مستقبل ہیں۔
اس مختصر تحریر کے توسط سے تمام حکام بالا سے دست بستہ اپیل ہے کہ انہیں پڑھنے دیا جائے، انہیں ان کا حق دیا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔