منصب جان، خاموش انقلاب کا جوالا – برزکوہی

347

منصب جان، خاموش انقلاب کا جوالا

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستانی طرزِ سیاست یعنی روایتی و فرسودہ اور بوسیدہ سیاست، وقت پاسی و ذہنی عیاشی، لفاظیت، زبانی جمع خرچ اور قیمتی وقت کو ضائع کرنے کے بجائے سینے میں ایک گہرے درد و احساس کو لیکر ذہن میں ایک پختہ شعور و علم اور فلسفہ کو سمو کر اپنے عمل و کردار کو خالص قومی کردار اور قومی عمل میں سمیٹ کر صرف اور صرف مطمع نظر یہ بنانا کہ سرزمین پر قابض دشمن سے کس طرح اور کیسے ایک بے رحم حساب و کتاب کرنا ہے، غازیوں اور شہیدوں کی زرخیز سرزمین مشکے میں جنم لینے والا بلوچ فرزند فدائی منصب جان عرف کریم جان اپنے اندر مکمل ایک انقلاب تھا، ایک خاموش طب طوفان تھا۔

ہم جیسے اکھڑ، منصب جیسے فرزندوں کے قدموں کے نشان کے برابر نہیں۔ ہم جیسے انسان کردار و عمل میں تو خاک لیکن جب اٹھتے، بیٹھتے، پھرتے ہیں تو دعوؤں و باتوں اور گرما گرم بحث و مباحثوں اور دلیلوں میں زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین سے ملادیتے ہیں۔

مگر منصب ایسا نہیں تھا، وہ پھر بھی کہتا تھا مجھے جو بھی مادروطن اور اپنی قوم کی خاطر کرنا تھا یا جو میں کرنا چاہا رہا ہوں شاید وہ مکمل قومی فرض اور قومی خدمت اور قومی ذمہ داری نہیں ہے، پتہ نہیں وطن، قوم شہداء اور تاریخ مجھے معاف کرینگے یا نہیں۔ یہ منصب جان کی سوچ و زاویہ نظر اور فلسفہ تھا جس کو آج اس کی علم و شعور، سچائی، بہادری، ہمت، ایمانداری، مخلصی اور بے غرضی کے ساتھ عظیم قربانی نے جو مقام عطاء کی، شاید ہم جیسے نیم انقلابی، نیم سیاسی حالات، ماحول، کیفیتوں، الجھنوں اور ڈگمگاتے قدموں کے شکار لوگ اگر پورے پچاس سال سے بھی آزادی کے نام پر جدوجہد آزادی سے صرف وابستہ رہے تو بھی اس عظیم مقام پر پہنچ نہیں سکتے ہیں۔ صرف دل کو بہلانے یعنی غلط فہمی و خوش فہمی اور خود کو خود تسلی دینے کی خاطر شاید اپنے آپ میں سب کے سب بلند و بانگ دعووں، تاثروں اور اقراروں میں بڑے بڑے اور اعلیٰ پائے کے انقلابی، باشعور، باعلم، بے غرض، سچے، ایماندار، مخلص، اصول پرست، دانشور، فلاسفر وغیرہ وغیرہ ہیں لیکن حقیقت میں مورخ کے بے رحم قلم کی نوک پر تاریخ کے بے رحم صفحات میں کچھ نہیں ہونگے۔ یہ ایک تلخ و مستند حقیقت ہے۔

اہم سوال یہ ہے، جو اکثر میرے ذہن پر ہتھوڑے برساتی ہے کہ علم و شعور، احساس، مخلصی، بہادری، سچائی اور انقلابی ہونے کا معیار کیا ہے؟ قربانی کا معیار کیا ہے؟ قومی کردار نبھانے، تحریک میں قومی حصہ ڈالنے کا تقاضہ اور معیار کیا ہے؟ اس معیار کو سمجھنے، ناپنے اور پرکھنے کا پیمانہ، ترازو اور زاویہ نظر کیا ہے؟ کس کے پاس ہے؟ ہر ایک کے پاس ہے اور ہر ایک کا پیمانہ مکمل صحیح ہے؟ اگر ہاں تو یہ کیا سب سے بڑی غلط فہمی نہیں ہے؟ پھر کہاں ہوگا وہ ترازو جو میرے بہادری، ایمانداری، حقیقی قومی کرادر کو ناپے تو لے اور پرکھے، نہیں تو میں بھی خوش باش، خوش فہمی اور غلط فہیمی کی سرسبز باغ میں اپنے کردار سے مطمئن ہوکر تاریخ رقم کررہا ہوں۔

ایک دفعہ ایک دوست بتارہا تھا کہ ایک بندہ انتہائی پر اعتماد، مطمیئن بہت تیزی سے جارہا تھا، اس سے میں نے کہا تھوڑی دیر صبرکرلو، بیٹھو، ہمارے ساتھ چائے پی لو، اس نے انتہائی پرامید اور پر اعتماد انداز میں جواب دیا کہ میں بہت مصروف ہوں، تحریک کے کاموں سے جارہا ہوں، پھر پتہ چلا وہ کسی کیمپ نمک پہنچا رہا تھا، ابھی علم و شعور کے سطح کے مطابق وہ اپنے اس حصے کے معمولی کام پر بھی مطمیئن اور خوش تھا لیکن ہمارے ذہن میں یہ کام مطمین کن قومی ذمہ داری نہیں ہے۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے آج جو ہم کررہے ہیں، کرچکے ہیں یا کرتے آرہے ہیں گوکہ ہم اپنی علم و شعور کے مطابق نمک والے کی طرح ضرور مطمیئن اور خوش ہونگے کیا حقیقت میں واقعی یہ قومی ذمہ داری اور قومی فرض کے زمرے میں شمار ہوتا ہے؟ یا جس طرح نمک والا اپنے آپ سے مطمیئن تھا، ہم بھی ایسے ہی ہیں؟ صرف کام اور ذمہ داری کے فرق کو لیکر کہیں ہم بھی اسی طرح نہیں سمجھتے ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ کسی منصب جان جیسے اعلیٰ باشعور اور بہادر انسان کی نظروں میں ہم اور ہمارے دعوؤں اور قربانیوں کی وقعت اسی نمک والے کی طرح ہو؟

تحاریک کے تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جب قومی آزادی اور انقلابی تحریکیں شروع ہوتی ہیں، تو ابتداء میں اکثریت تحریک سے وابستہ ہوکر انتہائی مخلصی، ہمت، سچائی، ایمانداری اور قومی فرض کے ساتھ بے غرض ہو کر اپنے کام اور ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں، مگر جب دشمن کی جبر و بربریت، تشدد، بے رحمی، گھیراو تنگ کرنے کا سلسلہ انتہائی تیزی کے ساتھ شروع ہوتا ہے، تو جدوجہد طویل ہوجاتی ہے، تحریکی سفر لمبا ہوجاتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ تحریک میں ذہنی تربیت اور شعور کی کمی اداراتی و تنظیمی ڈھانچوں کے فقدان کی وجہ سے تحریک میں تھکاوٹ اور خوف کے کوکھ سے خاموش راہ فراریت، الجھن، مایوسی، سستی، کاہلی، بزدلی، کام چوری، بہانہ بازی وغیرہ جنم لیتے ہیں اور پھر خاموش راہ فراریت الجھنوں اور مایوسیوں سے خود غرضی، بیوروکریٹک سوچ یعنی آرام و سکون، عیش و عشرت، جنگی منافع خوری، صرف اپنے ذات و خاندان کے خوشحالی، تحریک اور اپنی پارٹی کو اپنی ذات اور خاندان کے لیئے ایک بزنس کمپنی سمجھ کر اس سے ذاتی اور مادی فائدہ حاصل کرنے کی سوچ و تگ و دو پروان چڑھ جاتا ہے۔

تحریک میں یہ مرحلہ ایک انتہائی خطرناک اور تحریک کے لیئے ناسور مرحلہ ہوتا ہے اور یہ مرحلہ تحریک کو اور پورے قوم کو اور خاص کر ایک نسل کو دشمن کے ایٹم بم کے حملے سے زیادہ تباہ کرسکتا ہے۔

آج بلوچ قومی تحریک اسی مرحلے سے گذر رہا ہے، مگر تحریک اور بلوچ قوم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ دوسری طرف اسی مرحلے میں بھی منصب جیسے بے غرض اور قربانی کے جذبے سے سرشار نوجوان ذات و خاندان کی سوچ سے بے نیاز ہوکر اپنے آپ کو خود بخوشی وطن پر قربان کررہے ہیں، یہ بلوچ قومی تحریک کی کامیابی اور کامرانی کی امید ہے، نہیں تو اس وقت جنگی منافع خوری اور بیورکریٹک سوچ کے اثرات اور ماحول میں تحریک اس وقت مکمل کھوکھلے پن کا شکار ہوتا۔

مخلص، ایماندار، بےغرض، سچا، باشعور، بہادر، انقلابی، اپنے قومی فرض اور قومی قرض نبھانے کے ساتھ ساتھ تحریک کے اس مرحلے میں بیوروکریٹک سوچ اور جنگی منافع خوری جیسے سوچ کی ہر سطح پر انتہائی بے رحمی کے ساتھ مخالفت اور مذمت کرنے کے ساتھ اس کی بیخ کنی اور صفایا کریں، یہی شہداء کے مقدس لہو کے ساتھ وفاداری اور پاسداری ہوگی۔ اس سوچ اور پنجابی کے اہلکاروں اور کاسہ لیس مخبروں کی سوچ و عمل میں کچھ فرق نہیں ہوتا، دونوں سوچ و عمل تحریک کو دیمک کی طرح چاٹ لیتے ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مخبر تحریک سے باہر اور ایسے کردار تحریک کے اندر ہوتے ہیں۔

منصب جان جیسے سخت جان اور انتہائی بہادر و دلیر اور مضبوط انقلابی کامریڈ اور جنگی مہارت سے لیس دوست کی قربانی و بہادری کو دل و دماغ اور اپنے احساسات میں رکھ کر ان تمام شہداء کے مقدس لہو کو مقدس سمجھ کر ان قدر و لاج اور قیمت کو قائم و دائم رکھنا، ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا ہر جہدکار کا قومی فرض و قومی قرض ہے، اسی میں تحریک کی کامیابی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔