مخلصی و سچائی
ساگر گوادری
دی بلوچستان پوسٹ
سچائی ایک ایسا شے ہے، جو کھبی انسان کو ناکام نہیں بناتی ہے۔ انسان کی کامیابی انسان کی سچائیوں میں ہے، جو انسان سچے اور مخلص ہیں، وہ بے شک زیادہ تر مشکلوں کا سامنا کرتے ہیں، لوگ بھی انہیں غلط کہتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، پتھر مارتے ہیں، مگر پھر ایک سچا ایماندار اور مخلص انسان ان سب چیزوں کو برداشت کرتی ہے۔
سچا انسان وہ ہے، جو ہر عمل، مخلصی و ایمانداری سے کرتی ہے، حالانکہ لوگ اکثر سچے انسانوں کو پسند نہیں کرتے، مگر وقت اور حالات ایک دن پھر انہیں لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اسی انسان کا ساتھ دیں، جو سچا اور حقیقت ہے۔ کیونکہ بُرے لوگ بُرے کاموں میں ملوث ہیں، اس لیئے انہیں سچ سے نفرت ہے اور سچ کہنے والوں سے نفرت کرتے ہیں، کیوں جب کوئی انسان خود بُرا ہو، وہ دوسروں کو بھی بُرا سمجھتا ہے۔
انسان حالانکہ مٹی ہے اور کچھ نہیں، انسان کی پہچان انسان کی سوچ سے ہے، جسکی کی سوچ غلط ہے، وہ انسان نہیں۔ اس میں انسانیت نہیں، مگر جو مثبت و اچھے سوچ کے مالک ہوں، وہ خود اچھا اور دوسروں کو بھی اچھا سمجھتے ہیں اور کسی کی کردار کشی نہیں کرتے، یا کسی اچھے عمل کو کبھی بُرا نہیں کہتے، کیونکہ وہ ایک اچھے سوچ کا مالک ہے اور ایک سچا اور ایماندار انسان ہے۔
جب آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو سچائی اور ایمانداری کو اپنانا ہوگا، دوسروں کی کردار کشی نہیں کرنا ہے، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہے۔ ظلم کو ظلم کہنا ہے، ظالم سے نفرت اور مظلوم سے محبت کرنا ہے، جائز اور حق و حقوق کیلئے آواز اُٹھانا ہوگا، دو دلوں کو جدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا، بلکہ دو ناراض دلوں کو جوڑ دینا، ایک مخلص کام ہے، کیونکہ دلوں کا توڑنے والا شیطان ہوتا ہے اور دلوں کا جوڑنے والا انسان، اور انسان وہ ہیں جس میں انسانیت ہو۔
شاید آپ سب مسلمان ہیں اور ہم مسلمانوں کے پیغمبر محمد (ص) کےبارے میں سب جانتے ہونگے ـ جب کفار حضور ص کو تنگ کرتیں تو حضور اکرم ص مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ “اے مکہ آج میں مجبور ہوں، کل انشااللہ میں واپس آکر اپنے مکہ کی سرزمین کو کفاروں سے آزادی دلاونگا، حضور کی تبلیغ دین اسلام کا تھا، حضور صادق کا کام صرف اسلام کو پھیلانا تھا، کیونکہ حضور ص ایک سچا عاشق تھا، ایماندار و مخلص انسان تھا اور وہ ایک حقیقی لیڈر تھا، لیکن وہ ایک اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور آج بھی دنیا میں حضور ص کی نام زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہیگی۔
حضور ص کی کامیابی کی وجہ آپ کہ سچائی تھی، وہ صادق اور امین تھا، کسی سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرتا تھا، حالانکہ کفار آپ ص کو گالیاں دیتے تھے پتھر مارتے تھے کبھی کہتے تھے کہ جادو گر ہے۔ کبھی آپ کا سر قلم کرنے کا سوچتے رہتے مگر حضور ص نے برداشت، صبر، استقامت و نرم دلی، ایمانداری، مخلصی اور خاص کر اپنی سچائی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ان کی دلوں میں جگہ بنایا، وہی نفرت کرنے والے کفار بھی اسلام قبول کرنے لگے اور اسی طرح آہستہ آہستہ اسلام پھیلتا رہا۔ حضور ص اپنے مقصد میں کامیاب ہوتاگیا اور آج اسلام زندہ ہے اور اسلامی رہنما حضور محمد ص سب مسلمانوں کی دلوں میں بھی زندہ ہے۔
اس لیئے کہتا ہوں کہ ہم سب کو انسان ہوکر انسانیت کو زندہ کرنا ہے تو ہمیں سچائی اور ایمانداری سے جدوجہد کرنی ہوگی، کسی کی کردار کشی سے ہمیں فائدہ ملنے والا نہیں ہے اور کسی کو ناراض کرنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملے گا اور نماز و قرآن مجید پڑھنے کے علاوہ سچ کو سچ کہنا، ظلم کو غلط کہناہے۔ اور اپنے حق اور حقوق کیلئے آواز اُٹھانا، اپنے سرزمین کی آزادی کیلئے جہاد کرنا سب سے بڑی سچائی و مخلصی اور ایمانداری ہے۔
میرا پیغام ہے، مظلوم اقوام بلوچ، سندھی اور پشتون سے کہ خدا کیلئے اس ظالم ملک پاکستان کے خلاف وہ اپنی آزادی کیلئے آواز اُٹھائیں، کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک نہیں بلکہ ایک دہشت گرد ریاست ہے، جو اسلام کے نام پر لوگوں کو اکسانے کی کوشش کرتا ہے، جس ملک کے حکمران چور ہیں۔ جس ملک میں اللہ اور اسکے رسول کے اسلامی نظام کو چھوڑ کر قانونی غیر مذہبیوں کی ہو، کیا وہ اسلامی ملک کہنے کی لائق ہوگی؟
جس ملک میں عوام کو آزاد جینے کی حق نہ ہو، جس ملک میں انسانوں کی حق دینے کی بجائے ان کے منہ کا نوالہ چھینا جاتا ہے اور جس ملک میں ہیرا منڈی والوں کا راج ہو، کیا وہ خاک ایک اسلامی ملک ہوسکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔