ہیکرز نے ایک درجن سے زائد عالمی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے نظام میں گھس کر بڑی تعداد میں صارفین اور کارپوریٹ ڈیٹا چوری کر لیا۔
امریکی، اسرائیلی سیکیورٹی فرم ’سائبریزن‘ کے محققین نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے 30 سے زائد ملکوں کی کمپنیوں کو نشانہ بناتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور سیاسی اداروں سے وابستہ لوگوں کی معلومات اڑا لیں۔
سائبریزن کے چیف ایگزیکٹیو لیور ڈیو نے کہا: ’ہیکرز نے ایسے ٹولز استعمال کیے جو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خیال میں بیجنگ نے دوسرے حملوں میں استعمال کیے تھے۔‘
ڈیو نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’اتنی نفاست سے ہونے والے سائبر حملے کسی جرائم پیشہ گروہ کا کام نہیں، یہ کام ایک ایسی حکومت کا ہے جو اس طرح کے حملوں کی اہل ہو‘۔
سائبریزن نے ہیکنگ سے متاثرہ کمپنیوں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، تاہم ماضی میں چینی ہیکنگ آپریشنز سے آگاہ ماہرین کہتے ہیں کہ بیجنگ مغربی یورپ کی ٹیلی کام کمپنیوں پر حملے بڑھا رہا ہے۔
دوسری جانب چین بارہا کسی سائبر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا آیا ہے۔
ڈیو، جن کی ٹیم نے پچھلے نو مہینوں کے دوران مسلسل کام کرکے حالیہ ہیکنگ مہم کا پتہ چلایا، نے بتایا کہ حملوں کے دوران بڑی تعداد میں ڈیٹا چوری کرنے کے علاوہ بعض کمپنیوں کے داخلی آئی ٹی نیٹ ورکس میں داخل ہو کر ان کا انفراسٹرکچر تبدیل کر دیا گیا۔
اسرائیلی فوج کے ایک انٹیلی جنس یونٹ کے سابق کمانڈر ڈیو کے مطابق ہیکرز نے بہترین جاسوسی ماحول پیدا کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اہداف پر حملے کیے۔
سائبریزن کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں میں جو ٹول استعمال ہوئے وہ ماضی میں ایک چینی گروپ ’اے پی ٹی 10‘ کے زیر استعمال رہے۔
کمپنی ماضی میں بھی کئی سائبر حملوں کے پیچھے چین اور ایران کا ہاتھ دیکھتی رہی ہے لیکن محض شکوک کی بنیاد پر کبھی ان ملکوں کے نام نہیں لیے گئے۔
تاہم اس مرتبہ سائبریزن کو یقین ہے کہ نئے حملے چین سے کیے گئے۔ ڈیو کا کہنا تھا: ’ہمیں صرف ایک سافٹ ویئر نہیں ملا بلکہ پانچ خاص ٹول ملے جو چینی گروپ کے زیر استعمال رہے ہیں