لاپتہ افراد تکلیف میں ہیں – حیراف بلوچ

212

لاپتہ افراد تکلیف میں ہیں

تحریر: حیراف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آپکا بیٹا، آپکا والد، آپکا شوہر، آپکا دوست، آپکا کلاس فیلو، آپکا عزیز، آپکا رشتہ دار، آپکا ہمسایہ،چلیئے آپکا کچھ نہیں بس یہ سمجهیئے انسانیت تکلیف میں ہے۔.

انسانیت مرنے کی دعا کررہی ہے، یقیناً انسان کو اُسکی زندگی بہت پیاری ہوتی ہے، مگر زندگی جنہیں ہر پل اذیت دے رہی ہو اُنکا کیا؟ وه تو مرنے کی دعا کرتے ہونگے۔ اور انسان دعا بهی تب کرتی ہے، جب اُسکے بس میں کچھ نہ ہو. سوچیئے کیا کسی نے زندگی میں کبهی یہ دعا کی ہوگی کہ الله کرے میں کهانا کهالوں؟ میرے خیال میں نہیں! کیونکہ کهانا کهالینا تو اِنسان کے بس میں ہے.کسی بهی آدمی کے سامنے اگر کهانا پڑا ہو اور اُسے بهوک بهی لگی ہو تو وه کهانا کها لیگا نہ کہ الله پاک سے کهانا کهانے کی توفیق مانگے گا۔

ٹھیک اسی طرح اگر لاپتہ افراد کو زندگی سے مُکتی کا موقع ملے یا اُن کے بس میں ایسا کرنا ممکن ہو مطلب اُن کے ہاتھ کهلے ہوں یا اُنکے پاس کوئی چاقو، چهری یا محض کوئی لوہے کا ٹکڑا بهی میسر ہوتا تو میں سمجهتا ہوں کہ ہمارا یہ برسوں کا انتظار ایک پل میں ٹوٹ کہ بکهر جاتا، ہمارے پیارے ہمارے سامنے ہوتے۔.

فرق صرف اتنا ہوتا کہ وه خود چل کے نہ آتے بلکہ اُنہیں کندھوں پے لایا جاتا اور ہم اُسکے گردن کو ٹوٹا ہوا یا کٹا ہوا پاتے، جو شاید اُس نے اپنے ہی ہاتهوں کاٹا ہوا ہوتا، ذرا سوچیئے اگر واقعی اوپر لکهی گئی باتوں کے مطابق اُنکے بس میں ایسا ہو تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا ہم بیٹھ کر آپنا سر پکڑینگے؟ کیا ہم آپنے بے تُکی خاموشی پر پریشان اور پشیمان نہ ہونگے؟ یا ہم مگرمچھ کے آنسو بہا کر افسوس بھری آہیں بهرکر پهر سے اپنی زندگی میں مگن اور مشغول ہونگے؟ یا ہم یہ بهی سوچینگے کہ ایسا کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی؟ یا پهر ہم مُلا بن کر یہ کہینگے کہ خودکُشی حرام ہے؟

ان سوالات کے جوابات میں آپ پہ چهوڑتا ہوں. صرف اتنا بتا کہ اگر اتنی جسمانی اور ذهنی اذیتیں ہم اور آپ سہتے تو ہم آپنی ماں جیسے عظیم ہستی سے بهی گِلادار اور شکوه دار ہوتے کہ کیوں اُنہوں نے ہمارے لیئے آواز نہیں اُٹهایا۔ یہاں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ بعض لوگ یہ سمجهتے ہیں یا اُنہیں یہ بتایا گیا ہے کہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے اگر احتجاج کروگے، آواز ٱٹهاوگے تو اُنہیں مار دیا جائیگا اور ایسے ہزاروں نوجوان جو کئی برسوں سے لاپتہ ہیں، مگر کسی کو اس بارے میں علم ہی نہیں سوائے اُن کے گهر والوں کے، اُن حضرات سے میرا یہ عرض ہے کہ ایسا بالکل نہیں کہ آپکے چُپ رہنے سے وه آپ پر رحم کهاکر آپکے آپنوں کو بازیاب کردینگے بلکہ آپکی یہی خاموشی اُن ظالموں کیلئے ایک قسم کی چهوٹ ہے کہ وه آپکے آپنوں کے ساتھ جو کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔

یہاں میں نام لینا مُناسب نہیں سمجھتا مگر جب ہمارے ایک دوست لاپتہ تهے. تو اُسکی والده احتجاج پہ بیٹھ گئیں. جب ہمارا وه دوست بازیاب ہوگیا تو کہتا ہے اچانک سے جو لوگ ہم سے جانوروں سے بهی بدتر سلوک کرتے تهے زرا سا احتیاط برتنے لگے تو شاید اُسکی والده کی احتجاج کا ثمر تها.

تو آیئے ہم لاپتہ افراد کیلئے آواز بلند کرتے ہیں کیونکہ لاپتہ افراد خطرے میں ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔