فلسفہ ءِ فدائین – روکین بلوچ

247

فلسفہ ءِ فدائین

‎تحریر: روکین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎درد و غم، رنج اور یادیں جو ایک انسان کو گھیر لیتے ہیں تو اس کی کیا حالت ہوتی ہوگی یقیناً انسان ٹوٹ جائیگا، بکھر جائے گا اس حالت میں گھٹن ہوتی ہے، انسان جینے کی ہر خواہش کھو دیتا ہے، اسے بیزاری سی ہوجاتی ہے، وہ نکلنا چاہتا ہے لیکن نکل نہیں پاتا، بول نہیں پاتا اور آخر کار غموں کا شکار ہوکر بلکل تھک ہار جاتا ہے، ان سب سے گذر کر انسانی روح، مزاج اور چلن بالکل بدل جاتا ہے، وہ کوئی اور روپ دھار لیتا ہے، پھر وہ صرف نقصان دینا، نفرت کرنا جانتا ہے کیونکہ وہ خود ان سب سے گذر چکا ہوتا ہے۔

‎لیکن جب ان سب کے باجود انسان کے اندر شعور ہو وہ سمجھے کہ اسے جو درد ملا ہے، وہ کیونکر ملا ہے۔ یہ غم کس لیئے ہے۔ یہ بے چینی کیسی ہے، وہ تھک ہارنے کی کیفیت سے منہ موڑ کر اپنے بے سبب بے بسی کی وجوہات کو بھانپ لیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اسے جو بے سکونی سی محسوس ہورہی ہے آخر اس کی حقیقت کیا ہے۔

‎میں بھی ایسی ہی بے چینی کا شکار ہوں، میں دکھ میں ہوں، تنہائی محسوس کررہا ہوں لیکن میں مایوس ہرگز نہیں، میں اپنے دوست کی جدائی، اس کی شہادت پر دکھی ضرور ہوں کیونکہ اب وہ مسکراتا چہرہ میرے پاس نہیں وہ پیارے باتیں کرنے والا یار میرے قریب نہیں، وہ حوصلہ دینے والا بھائی آج دور ستاروں میں جا بسا ہے لیکن اس کی دوری نے مجھے اس کے اور قریب کردیا، کل وہ میرے پاس رہتا تھا آج میرے اندر رہتا ہے میرے سوچوں میں رہتا ہے میرے خیالوں میں اب وہی ہے، وہ مجھے مضبوط بنا گیا، وہ سکھا گیا کے زندگی کو کیسے ہرا کر زندہ رہنے کا لقب جیتا جاتا ہے۔

‎سرزمین کی آزادی کے جنگ میں مصروفِ عمل، میں نے بہت سے دوست کھو دیئے لیکن حقیقی معنوں میں ان کی شہادت کے بعد ہم انہیں اور زیادہ پا لیتے ہیں، انہیں خود میں جذب کرلیتے ہیں، ان کی یادوں کو اپنا کر ہم خود سے ہمکلام ہوکر ان کے فلسفے کو پڑھ سکتے ہیں، وہ امر ہوجاتے ہیں، وہ ہمیں بتاتے ہیں وہ کرنا جانتے تھے اور وہ کر گئے انہیں کرنا تھا، اب تمھیں کرنا ہے کرجاؤ ان کی طرح مسکراتے شہادت کو پالو اور امر ہوجاؤ۔

‎فدائین بلوچ سنگتوں کے طریقہ شہادت دیکھ کر آج قوم میں خود سے کر گزرنے کی ہمت جٹ پائی ہے، فدائین کی ہمت بہادری اور کر جانے کے فلسفہ نے بلوچ قوم اور قومی تحریک میں جو موڑ لایا ہے جو تازہ روح پھونکنے جیسی ہے، وہ دشمن کے لئے قیامت خیز عمل بن چکا ہے، وطن زادوں نے اعلان کردیا ہے کہ اب ہم اپنی من چاہی موت چنیں گے، وہ موت جو زندگی کی علامت بن چکی ہے۔

‎فدائین کا فلسفہ ہر روز گھٹ گھٹ کر یا دشمن کے طاق میں بیٹھ کر اپنے اندر رہنے والے بزدلوں کی بزدلی اور لالچیوں کے لالچ کا شکار ہونے سے بہتر ہے، مسکراتے اور بندوق لہراتے دشمن کے سینے پر وار کرکے امر ہو چلے اور فدائین دیوانہ وار چل نکلے اُس پار اور ہمارے لیئے چھوڑ گئے ایک فیصلہ، فیصلہ ان کی طرح کر گزرنے کا، وہ فیصلہ اس موت کا جو زندگی کی علامت ہے، وہ موت جو ایک خوبصورت صبح کا ضامن ہے، وہ موت جس کا انتخاب ہمیں خود کرنا ہے، وہ موت جو آنے والی نسلوں کی بہتر زندگی آزادی کے صبح کی کرن میں وصول ہوگی۔

‎فدائین درویش، فدائین ریحان، فدائین رازق جان، رئیس جان، ازل مری، حمل بلوچ، کچکول بلوچ، اسد بلوچ اور منصب بلوچ نے جس راہ کو چنا اور مسکراتے اس پر چل پڑے اور دشمن کو پیغام دیتے ہوئے اپنی آخری الوداعی سلام دیکر چل پڑے ان کو معلوم تھا کہ اب وہ یہاں سے اس مقام تک جا پہنچینگے کہ تا قیامت وہ زندہ رہ سکے اور ان کے عمل سے قوم اور سنگتوں میں جو جذبہ ءِ شہادت پیدا ہوگا وہی منزل کی طرف بڑھتے قدم اور ان کے عمل کو جاری رکھینگے۔

‎آج دوستوں کے عمل سے مجھ جیسا ایک ادنیٰ سا انسان زندگی کے سارے خواہشات بھول کر زندگی کی اصل مقصد جان چکا ہے۔ مجید بریگیڈ کے فدائین سنگت سکھا گئے آج ان کی شہادت کے بعد اپنے مقصد پر قائم رہتے ہوئے معمولی سی جان کو عظیم مقصد پر بلا خوف قربان کرنے کی ہمت جٹی ہے اور صرف میں نہیں آج دوستوں کی قربانیوں نے کئی فدائین پیدا کردیئے، جو آنے والے دنوں میں اور اس آزادی کی روشن صبح تک مسکراتے کر گزرنے کا اردہ رکھتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔