غلامی کی زنجیروں کو توڑتی فکر – شہیک بلوچ

348

غلامی کی زنجیروں کو توڑتی فکر

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک ایسا معاشرہ جو نیم قبائلی و نیم جاگیرداری ہے، جسے جدید نیشنلزم کی بنیاد پر ایک قوم قرار بھی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ سماجی پیچیدگیاں انتہائی شدید قسم کی ہیں۔ رہن سہن قدرے پسماندہ ہے اور انڈسٹریل دنیا سے منقطع تعلقات۔ بکھری ہوئی آبادی سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ بکھری ہوئی سوچ پھر اوپر سے انگریز سامراج کی پالیسیوں کا تسلسل۔ عرب کے کلچرل امپیریلزم کا جبر بھی۔ یہ صورتحال بلوچ سماج کی ہے، جہاں سردار کو عوامی نمائندے سے سامراجی نمائندہ بنا کر عوام کو اپنے قابو میں رکھنے کی ایک غلیظ پالیسی لاگو کی گئی اور سماجی ترقی کے ہر کوشش پر قدغن لگایا گیا۔ سیاسی پارٹیاں بنتی گئی اور لیڈران کی سوچ الیکشن تک محدود رہ گئی۔ ایسے میں نسلوں کا کیا ہوگا؟ یہ سوال تشنہ رہ گیا۔

جس طرح نوآبادکار کے لیئے بلوچ کی جگہ اس کی سرزمین اہمیت رکھتی تھی، اسی طرح بلوچ لیڈران بھی بلوچ کی جگہ صرف اس بلوچیت کو اہمیت دیتے تھے، جو ان کے اجارہ داری کو قائم رکھتا۔ ایسے میں بلوچ قوم کو غلامی کی اندھیروں سے نکال کر آزادی کی روشنی سے منور کرنے والے بابا خیربخش مری کا جنم کسی معجزے سے کم نہیں۔ وہ فکر جو علاقائی و قبائلی سطح سے بلند ہوکر قومی سطح پر غور و فکر اور عملی طور پر جدوجہد کرنے کا دعوت دیتا ہو، وہ اس شدید نظریاتی بحران کے صحرا میں کسی نخلستان سے کم نہیں جس میں قوم کی اجتماعی زندگی ہے۔ بابا مری خود کو ایک ادنیٰ بلوچ تصور کرتے تھے اور ان کے انہی اعلیٰ انقلابی اوصاف نے بلوچ تحریک کو بلوچ سماج میں برتری دلائی۔ انہوں نے شخصیت پرستی کی لعنت کو کسی بھی مقام پر حاوی نہیں ہونا دیا نا ہی کبھی اپنے شخصیت کا خود یا کسی اور کو منفی استعمال کرنے کا حق دیا حالانکہ بلوچ نوجوانوں میں ان کی انتہائی چاہت کے باوجود کبھی بھی انہوں نے تحریک کا مرکز بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر تحریک کو اداروں کو زیادہ اہمیت دی اور اداروں کا احترام کیا۔

بابا مری اپنے رائے کے اظہار کو ناقص رائے قرار دیتے ہوئے بلوچ سماج میں قبائلی رویوں پر ضرب کاری کرتے، وہ انتہائی مخصوص اور مدلل الفاظ کا چناؤ کرتے اور مختصر سی بات میں ایک گہرا پیغام دے جاتے لیکن انہوں نے کبھی بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ بلوچ تحریک کہ کل ہیں بلکہ وہ ہمیشہ اس بات کا اظہار کرتے کہ میں یا میری اولاد نے جو کچھ کیا ہے وہ بہت کم ہے۔ وہ تحریک میں مطلعق العنان رویوں کے خلاف تھے، اس لیئے اپنی آخری سانس تک انہوں نے اپنے انقلابی آدرشوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کو پریشرائز کرنے کے لیئے ان کے کردار کشی تک کی گئی لیکن انہوں نے اولاد کے بجائے نظریئے کا ساتھ دیا اور وقت نے انہیں سرخرو ثابت کردیا۔

وہ اکثر یہ پرچار کرتے تھے کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم اجارہ دار تو نہیں بننے جارہے؟ ان کے یہ اندیشے سچ بھی ثابت ہوئے لیکن انہوں نے اپنی ذات کی قربانی دے کر بلوچ تحریک میں اجارہ داری کے لیے گنجائش کم ہی کردیا۔

بابا مری بلوچ آزادی پسند قوتوں کے متحد و منظم ہونے پر کافی زور دیتے تھے، ان کے آخری پیغام میں بھی یہ واضح ہے کہ “دشمن چالاک ہے وہ تمہیں دھوکا دیگا، مزید تقسیم کرنے کی کوشش کریگا۔”

انہوں نے بلوچ تحریک کو درپیش اندرونی مسائل کے لیئے آزادی پسندوں کی سپریم کونسل کا تصور پیش کیا تھا، جہاں نمائندگی سب کو ملنی چاہیئے اور باہمی مسئلے سنجیدگی سے حل ہونے چاہیئے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ میڈیا ٹرائل کے بجائے باہمی بات چیت سے مسائل کا سنجیدگی سے مشترکہ طور پر حل ڈھونڈنا چاہیئے لیکن ان کی ان کاوشوں کا جس طرح غیر سنجیدگی سے بذریعہ پروپیگنڈہ جواب دیا گیا، وہ انتہائی افسوسناک عمل تھا۔ ان پر الزامات لگائے گئے لیکن ان کی خاموشی کا جواب آج وقت خود دے چکا ہے۔ ان کے بعد اسی فکر کو لے کر استاد اسلم نے اجارہ داریت کو چیلنج کیا اور تحریک کی ساکھ کو دوبارہ بحال کیا۔ آج بابا مری کے فکر سے لیس ان کے فکری وارث ان کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

بابا مری نے بلوچ قوم کو یہ درس دیا کہ بلوچ کی نجات نوآبادیاتی نظام سے مکمل چھٹکارے کی صورت میں ہی ممکن ہے اور اس کے لیئے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے انتھک جذبہ درکار ہے۔

انہوں نے یہ بھی درس دیا کہ دشمن چالاک ہے اس لیئے رازداری پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیئے، بقول بابا مری “دن میں عام انسان کی طرح رہو رات کو دشمن پر قہر کی طرح ٹوٹ پڑو۔”

اس حوالے سے انہوں نے کاہان میں انگریزوں سے جنگ کے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا تھا کہ مری بلوچوں نے رات کی تاریکی کا انتظار کیا کہ اچانک حملہ کرینگے لیکن رات کی تاریکی میں بھی انہوں نے دشمن کو للکار کر بیدار کیا نتیجتاً ان کا حملہ پسپا ہوا۔۔ بابا یہاں سوال کرتے ہیں “پھر رات کی تاریکی کا فائدہ کیا اٹھایا جب اسے بیدار کردیا آپ نے؟”

یعنی دشمن پر اس وقت حملہ آور ہونا چاہیئے جب وہ غافل ہو۔ دشمن کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے نہ کہ خود غفلت برت کر دشمن کو فائدہ پہنچانا چاہیئے۔

بابا مری بلوچ تحریک آزادی کا ایک روشن باب ہے اور ان کی روشنی ہماری رہنمائی کرتی رہیگی۔ ہم جو ان کے نظریئے کے وارث ہیں ہمیں بلوچ قومی تحریک میں اداروں کے کردار کی مضبوطی بابت اپنا کردار کرنا ہوگا اور اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔