علی حیدر بلوچ اور غائب بلوچوں کا قافلہ
تحریر ظفر کریمی/ترجمہ مشتاق علی شان
دی بلوچستان پوسٹ
سن دو ہزار تیرہ کا سال اورنومبر کے ایام تھے، کوئٹہ سے کراچی کی سمت یخ بستہ ہوائیں اور تھکے ماندہ بلوچ ایک ساتھ آن وارد ہوئے۔ میں قافلے(لانگ مارچ ) کے شرکاء کے ساتھ گفت وشنید( انٹرویوز) کے لیئے بلوچستان کے ساتھ سندھ کی سرحد پر واقع یوسف گوٹھ پہنچا۔ قافلے کے شرکاء نے وہاں پڑاوَ ڈال رکھا تھا اور ان کے قریب رینجرز کے سپاہی نگرانی کے لیئے موجود تھے۔ انہوں نے مجھے روکا اورتلاشی، پوچھ گچھ اور میرا پریس کارڈ دیکھنے کے بعد مجھے ان کے پاس جانے کی اجازت دی ۔ میں قافلے کے شرکاء کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ستائیس دن کے پیدل سفر کے باعث ان کے پیروں پر چھالے اور زخم تھے۔
قافلے کے شرکاء میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ ماما قدیربلوچ اس قافلے کا سب سے پیر سن شخص اور علی حیدر بلوچ سب سے کم سن بچہ تھا۔ میں اس وقت مشال ریڈیو کے ساتھ کراچی کے نمائندے کے طور پر وابستہ تھا۔
اس طویل سفر میں ننھا علی حیدربلوچ ایک پہیئے والی ٹرالی بھی کوئٹہ سے کراچی ساتھ لایاتھا۔ اس ٹرالی کے اگلے حصے پر ایک کتبہ لگا ہوا تھا جس پر جبری گمشدگی کے شکار بلوچوں کی بازیابی کا نعرہ درج تھا۔ جب کہ اس ٹرالی کے پچھلے حصے میں کچھ پھٹے ہوئے جوتے اور ایک یا شاید دو میلے کمبل رکھے ہوئے تھے۔
علی حیدر بلوچ بچہ تھا، ہاں آٹھ یا نو سال کا بچہ۔ اس عمر کے بچے تو اسکول جاتے ہیں یا کھیلتے کودتے ہیں، گیمز کھیلتے ہیں لیکن معلوم نہیں کس رنج وتکلیف کے باعث یہ بچہ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک مارچ کے لیئے اپنے گھر سے نکلا تھا۔
میں نے قافلے کے شرکاء کے انٹرویوز کیئے ، ان کی ویڈیوز بنائیں۔ ان کے ساتھ اب کراچی کے سینکڑوں بلوچ شامل ہو چکے تھے اور یہ کراچی پریس کلب کی جانب رواں دواں تھے۔ اس اجتماع تک صرف دو صحافی پہنچے تھے، ایک میں اور ایک بی بی سی کے ریاض سہیل۔
علی حیدر کے ساتھ میں نے اور ریاض نے بات چیت کی۔ وہ سفر کے باعث تھکا ہوا تھا لیکن والد کی جبری گمشدگی اس کا چین وسکون غارت کیئے ہوئے تھی۔ وہ اپنے والد صاحب کو ڈھونڈنے نکلا تھا۔
بلوچوں کا لانگ مارچ کراچی سے گذرکر اسلام آباد چلا گیا اور میں بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض میں مصروف ہو گیا۔ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک دو ہزار کلو میٹر سے زیادہ کی مسافت ہے۔ مسافتیں تو ہند کی آزادی کے سالار گاندھی جی نے بھی طے کیں اور چین کے ماوَزے تنگ نے بھی لیکن ننھا علی حیدر بلوچ جس نے اپنے نازک پیروں سے جبری گمشدگی کے شکار بلوچوں کی بازیابی کے لیے طویل پیدل مسافت طے کی وہ خود اس راہ میں گم کر دیا گیا۔ تقریباً چھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ رات میں نے ٹویٹر پر دیکھا کہ علی حیدر بلوچ بھی جبری گمشدگی کا شکار ہو چکا ہے۔ میرا دھیان یکدم یوسف گوٹھ کی طرف چلا گیا۔ وہ تھکا ماندہ، بد حال اور نامعلوم منزل کی جانب رواں معصوم راہی علی حیدر بلوچ میری نگاہوں میں گھوم گیا۔ اس کی وہ تصویر میری نگاہوں کے سامنے تھی جس میں وہ ٹرالی پکڑے کراچی سے اپنی منزل کی راہ پر قافلے میں آگے آگے جا رہا تھا اورقافلے کے دیگر شرکاء کے لیئے حوصلے کا باعث تھا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ ان چھ سالوں میں علی حیدر بلوچ بھی بڑا ہو گیا ہوگا ۔ اس کے چہرے پر بال اگ آئے ہوں گے اور اب وہ جبری گمشدگی کی عمر کو پہنچ گیا ہوگا۔ اسی لیئے تو اسے غائب کر دیا گیا، اپنے والد کی طرح، دیگر بلوچوں کی طرح۔
معلوم نہیں علی حیدر بلوچ کی ماں زندہ ہے یا نہیں۔ اگر زندہ ہے تو اپنے شوہر رمضان بلوچ کی غائب کیئے جانے کے بعد اس کا بیٹا علی حیدر بھی اس سے چھین کر غائب کر دیا گیا۔ گویا اپنے بیٹے کو انہوں نے اس لیے پال پوس کر بڑا کیا کہ وہ غائب کر دیا جائے۔
پشتون شاعر رحمت شاہ سائل نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ میندی لیونئی دی نادانی دی‘‘ ( مائیں پاگل ہیں، نادان ہیں )
بشکریہ مشال ریڈیو
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔