عالمی آگاہی مہم و قومی منزل
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سفارتکاری زمانہ قدیم سے لیکر زمانہ جدید تک قوموں کی سیاسی و سماجی مفادات اور جدید ریاستی نظام کی پرورش میں ہمیشہ یکساں اہمیت کی حامل رہی ہے۔ سفارتکاری قومی شناخت و ثقافت کو اجاگر کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ قوم پرست اقوام میل میلاپ کے ان تمام ذرائع کو سفارتکاری میں مددگار بنانے کی کوشش کرتی ہیں، جن سے انکی شناخت و ثقافت کو قائم رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کامیاب ممالک کی ترقی کے رازوں میں سے سب سے اہم راز کامیاب سفارتکاری ہوتی ہے۔ ایک طالب علم سے لیکر سیاحت کی غرض سے کسی دوسرے ملک و علاقے میں جانیوالا ہر شخص اپنے قوم کا سفیر ہوتا ہے، اس لیئے اس پر فرض ہوتا ہے کہ وہ سفارتکاری کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر قومی خواہشات و منزل و مقصد کو دوسرے اقوام کے سامنے اجاگر کرے۔اگر ایک فرد بھی قومی تحریک کا حامی ہوکر اخلاقی و سیاسی حمایت کرنے پر راضی ہوتا ہے تو یہ صحیح راستہ پر ہونے کی نشاندہی ہے۔ بہترین سفارتکاری و اہم کامیابیوں کیلئے ضروری ہے کہ تنظیمی اور ادارہ جاتی کاوشیں کی جائیں۔
عالمی سطح پر سفارتکاری و نمائندگی کسی بھی قومی تحریک کیلئے انتہائی ناگزیر ہوتی ہے۔ قومی تحریک سے منسلک ادارے، سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کی ہمیشہ کوشش رہتی ہیں کہ ہر ممکن طریقہ کار آزما کر دنیا کی دیگر مہذب اقوام تک اپنی قومی خواہشات کی تکمیل و قومی مفادات کی تحفظ کیلئے حمایت حاصل کی جاسکے۔ اکیسویں صدی جہاں سینکڑوں پیچیدگیوں کا سامان لیکر نمودار ہوا ہے، وہیں پر دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے بے شمار طریقہ کار بھی لائی ہے۔ بلوچ قومی جہد میں شامل جماعتیں، سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیمیں موثر کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل نظر آتی ہیں، جو یقینا” حوصلہ افزاء ہے کہ تحریک اپنے منزل کی جانب کامیابی سے محو سفر ہیں۔ حب الوطنی اور قومپرستی کی پیاس ہر سیاسی گل و جہدکار کو متواتر عمل کرنے پر اکساتی رہتی ہے تاکہ مظوم و بے کس و بے سہارا بلوچ قوم کو صدیوں کی غلامی سے نکال کر تا ابد آزادی کی عظیم نعمت حاصل ہو اس لیئے جہد و سفارت کاری کو جس قدر جلدی ممکن و مزید منظم و مربوط شکل دی جائے۔
ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن اپنے قیام سے ہی اتحاد و یکجہتی سمیت قومی امنگوں، شہداء اور اسیروں کی قربانیوں کی بدولت بلوچ قومی شناخت کو اقوام عالم کی تمام مقبول اداروں اور عوام الناس تک پہنچانے کی کاوشوں میں مصروف عمل ہے۔ تنظیم متواتر کامیاب و منظم آگاہی مہم چلا کر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، پاکستان کی بحثیت ایک جابر و ناکام ریاست تشریح و دیگر مظوم و محکوم اقوام سندھی، پشتون، مہاجر عوام کے خلاف اقدامات کو فاش کرتی رہی ہے۔ تنظیم اپنے محدود وسائل کے باوجود وسائل کے بہتر استعمال کر کے بہترین پروگراموں کے انعقاد میں کامیاب رہی ہے۔ اتحاد و یکجہتی کے سلوگن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تنظیم ہمیشہ دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ ہمگام رہی ہے۔ جسکی تازہ مثال بلوچ ریپلیکن پارٹی کی قیادت کے ساتھ ملکر برطانیہ کے بین القوامی سیاسی و سیاحتی مرکزی شہر لندن میں آگاہی مہم کی صورت میں جاری ہے۔ جس کے دوررس نتائج مرتب ہونگے۔ اتحاد و یکجہتی و مشترکہ عمل کرنے کا رواج بڑھے گا، جو مستقبل میں دیگر جماعتوں کی شمولیت کا سبب بن سکتا ہے۔
موجودہ بلوچ قومی تحریک نیشنل ازم کی بنیاد پر ادارتی جہد کے ذریعے لڑی جانیوالی پہلی صف بندیوں میں شمار ہوتی ہے، جس میں دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ مظبوط و متحرک ادارے ہی اس پرخار راستے پر قومی منزل کی جانب پیش قدمی میں مدد گار ہونگی۔ اکیسویں صدی میں جاکر قدم رکھنے کے بعد، آج گمنام راستوں میں شہداء، اور اسیروں کی جہد آزادی کا نعرہ دنیا بھر میں گونج رہی ہے، سیاسی کارکن اور ادارے ان قربانیوں کی بدولت اس قابل ہوئے ہیں کہ بلوچ قوم کی منشاء و مرضی کے مطابق ایک آزاد و خود مختیار بلوچستان کی تشکیل کے مقصد کو پوری دنیاء تک پہنچایا جارہا ہے۔
آج بلوچ قوم کا منزل واضح ہے لیکن جہد میں مزید کامیابیاں سمیٹنے کیلئے اتحاد و یکجہتی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکے لیئے متحریک تنظیموں ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن، بلوچ ریپیبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزشن، فری بلوچستان موومنٹ، بلوچ سالویشن فرنٹ سمیت دیگر بلوچ جہد میں سرگرم تنظیمیں ملکر سیاسی اتحاد کی تشکیل کی راہ ہموار کریں تاکہ بلوچ قومی منزل کو حاصل کرنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی داغ بیل ڈالی جاسکے۔ بابا خیر بخش مری کے اس ادھورے خواب کی تکمیل کی جاسکے جو ایک مشترکہ کونسل کی شکل میں بلوچ قومی اتحاد و یکجہتی کی علامت ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔