طلبہ اور سیاست – احسان بلوچ

1603

طلبہ اور سیاست

احسان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

طلبہ سیاست پہ بحث کرنے سے پہلے ہمیں اس بات کی جانکاری ہونا ضروری ہے کہ لفظ سیاست کیا ہے اور طالب علموں نے کیوں سیاست سے وابستگی جوڑی ہے۔ سیاست ایک سائنس ہے، جو ریاست اور اس کے عوام کی عام فلاح و بہبود کو فروغ دینے سے متعلق ہے. جس طرح سائنس کے قوانین ہوتے ہیں، اسی طرح سیاست کے بھی اپنے قوانین، آئین اور منشور ہوتے ہیں جو آئینی دائروں میں رہ کر عوام کے حقوق کی تحفظ کرتے ہیں۔ ایک معاشرے میں جتنے بھی سماجی سرگرمیاں ہو رہے ہیں وہ بھی آپ کے سیاست کے حصے ہیں۔ اگر آپ کسی مظلوم پہ ظلم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور آپ اس کی مدد کے لیئے پہنچ جاتے ہیں تو بھی سیاست ہے، اگر آپ کسی ہمسایہ یا دوست کی حال پرسی کرتے ہیں تو بھی سیاست ہے، اگر آپ کسی کالج یا یونیورسٹی میں کسی کا فیس جمع کرتے ہو تو بھی سیاست ہے۔ اگر ہم اصل معنوں میں سیاست کو دیکھیں تو سیاست انسانیت سے منسلک ہے۔

کسی بھی طالب کو سیاست میں حصہ لینے سے پہلے اس کے پاس تنقیدی سوچ کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ہر ایک عمل کو تنقیدی نظر سے دیکھے، جو ایک معاشرے میں ہو رہا ہے۔ طالب علم کمیونٹی ملک کی آبادی کا سب سے زیادہ ترقی پسند، واضح، حوصلہ افزا اور متحرک طبقہ ہے. لیکن افسوس سے، حالیہ ماضی میں، ایسی صورت حال موجود ہے جہاں پہ طلبہ سیاست کے سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ پاکستان کے آمر ضیاء الحق نے 1984 کو کالجز اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی ۔ 1984 میں ضیاء الحق کی آمریت میں طالب علم یونین کو پابندی عائد کرنے سے پہلے، ان کی سرگرمیوں کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں باقاعدہ سالانہ انتخابات کے ذریعے منعقد کیا جاتا تھا اور طالب علم منظم طریقے سے اپنے حقوق کی تحفظ کرتے تھے۔ طلبہ سیاست کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فروغ دینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ طلبہ حقوق کی تحفظ اور عوام میں علم و شعور کو اجاگر کرنا، قومی مسائل کو سامنے لانا، کرپٹ حکمرانوں اور اداروں کے خلاف جنگ لڑنا اور سارے طالب علموں کو منظم طریقے سے ایک پلیٹ فورم پر جمع کرنے کا عمل ہے۔ طلبہ تنظیموں کا مقصد یہ رہا ہے کہ ادارے اور خارجہ کے اندر دونوں طالب علموں کی نمائندگی کرنا، بشمول مقامی اور قومی مسائل پر. طلبا کے اتحادیوں کو مختلف قسم کی خدمات فراہم کرنے کے لئے بھی ذمہ دار ہیں۔

سیاست خواہ وہ بلوچ طلبا کی نمائیندہ تنظیم بی ایس او ہو یا ملکی سطح کے دیگر طلبا تنظیمیں جو ترقی پسند اور انسان دوست ہوں سب کا بنیادی مقصد طلباء کے حقوق کی دفاع اور اس کے لیئے جہدوجد کرنا ہے۔ بی ایس او کے بلوچ طلبا کے حقوق کی جدوجہد کئی عشروں پر محیط، ایک انقلابی سیاست ہے جس نے ملک بھر کے بلوچ طلبا کو ایک منظم پلیٹ فارم فراہم کی ۔بی ایس او کی انقلابی جدوجہد اور متحرک سیاست نے طلبا کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

طلبا اور بی ایس او آج لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں یعنی ہمارے گذشتہ زمانے کے طلباء قیادت نے ہمارے لیئے ورثے میں ایک انقلابی طلبا تنظیم ترکے میں چھوڑی، جس کو ہم طلباء اور آج نوجوان نکھار کر اس میں توانائی پیدا کریں۔ ایک طلباء تنظیم کو کس طرح نکھارا جاتا ہے اس میں کس طرح توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ ہاں یہی بنیادی سوال ہے کہ وہ کونسی حکمت عملی تنظیم کے اندر عمل میں لایا جائے جس میں طلبا کو سیاست سے جوڑا جا سکتا ہے۔

اج کے نوجوان طلبا سیاست سے کیوں چڑ کھاتے ہیں۔
کیا طلبا سیاست نے طلبا کے حقوق کی جنگ لڑنا چھوڑ دی ہے؟
کیا طلبا تنظیموں میں اس طرح کی سکت نہیں ہے؟
کیا طلبا سیاست برائے نام کی سیاست رہ گئی ہے؟

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ طلباء تنظیموں نے اپنے ہدف اور اپنے مقصد سے روگردانی کی ہے۔ طلبا کا ہدف اور اس کے مقاصد کیا تھے۔ جو انہوں نے چھوڑ چکے ہیں، جس سے طلبا سیاست غیرمنظم اور غیر فعال ہوئی ہے۔

طلبا تنظیموں اور طلبا سیاست کا مقصد طلبا سیاست کو تقویت دینا ہے، طلباء کے بنیادی مسائل کو بحث میں لانا ہے، ان کے حل اور انھیں میڈیا اور اعلیٰ حکام تک پہنچانے کے لیئے جدوجہد کرنا ہے۔ اگر طلبا سیاست اپنے بنیادئ ہدف اور پروگرام سے روگردانی کرے تو طلبا ان سے جڑنا چھوڈ دیتے ہیں کیونکہ طلبا کے بنیادی مسائل ان کے تعلیمی مسائل ان کے سلامتی اور بقا کو خاطر میں لائے بغیر طلبا کسی کو اپنا نجات دہندہ ماننے کے لیئے تیار نہیں ہونگے۔

آج طلبا تنظیمیں پارٹیوں کے زیر اثر ہیں، وہ طلبا کے مسائل کے حل سے زیادہ اپنے پارٹی کے لیڈر کی خوشنودی میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں طلبا سیاست سے لاتعلق اور بیزار ہوتے ہیں۔ طلبا سیاست کسی پارلیمانی جماعت کے لیڈر کو خوش کرنے کے گھر کو نہیں کہتے بلکہ طلبا کے تمام چیدہ چیدہ مسائل کو لے کر ان کے لیئے جدوجہد کو کہتے ہیں۔

طلبا سیاست، مہم جوئی اور انتہا پسندی کے خلاف ہے بلکہ باقاعدہ ایسے رویوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی شعوری کوشش ہے ۔اگر طلبا سیاست مضبوط وفعال ہوگا تو اج کا سماج سائینسی اور جمہوری سماج ہوگی اگر طلبا سیاست کا گھلا گھونٹا گیا تو اس کے ردعمل میں سماج پستی پسماندگی اور کئی صدی پیچھے کی طرف جائے گی۔

طلبا کی آج بہت زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سماج دشمن قوتوں کی عوام کے سامنے نقاب کشائی کریں، ان کو بے نقاب کریں تاکہ آج کے نوجوانوں کے سامنے ان کا مکروہ چہرہ عیاں ہو۔ طلباء سیاست اور نوجوانوں کی جدوجہد سے خوفزدہ قوتیں عوام دشمن اور سماج دشمن قوتیں ہیں، جو عوام اور نوجوانوں کو گمراہی اور جہالت کی طرف کے جانے کی راہ میں سب سے بڑے مددگار اور معاون ہیں۔

طلباء سیاست سماجی شعور اور سیاسی و نظریاتی پختگی کا اساس ہے، اس اساس کو مضبوطی اور توانائی کی آج اتنی ضرورت ہے ماضی میں اتنا کبھی بھی نہیں تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔