ضیاء آزادی تھا – گلزار گچکی

471

ضیاء آزادی تھا

تحریر: گلزار گچکی

دی بلوچستان پوسٹ

شعور وہ جس کی روانی ہر سمت پھیلتا جائے، عمل وہ جسے انجام دیتے ہوئے جان سے گذر جائے، کردار وہ جو ضیاء بن جائے، ٹک تیر بن کر دشمن کے اڑتے غرور کو اپنے چھوٹی سی ہتھیار لیکن بلند حوصلوں کے ساتھ خاک میں ملا دے۔ وہ بہادر بن کر دشمن کو گلی کوچوں میں زندگی سے خوف دلا کر موت کو یاد کرنا سکھائے، وہ لازوال بن کر ہمیشہ زندہ رہنے والا باب بنجائے وہ مکمل ہوکر دلجان کھلائے گا۔

ضیاء آزادی ہے، آزادی میں ضیاء کو کہونگا وہ آزاد تھا، اپنے سوچ میں اپنے عمل میں اپنے کردار میں ضیاء آزادی تھا کہ اس نے جو راستہ چنا وہ آزادی کا تھا، اس نے جو راستے بنائے وہ آزادی کے لئے تھے، اس نے جو عمل اپنایا وہ ایک غلام قوم کو غلامی سے آزادی دلانے کے لیئے ہی تھا، وہ ہے آزادی، آزادی میں دلجان ہے دلجان ہی آزادی ہے۔

ضیاء کو شاید ہی کوئی نہیں جانتا ہوگا، بلوچ قومی تحریک کی شروعاتی طلباء سیاست سے لیکر مسلح جنگ تک ضیاء نے اپنا کردار ہر مقام پر ادا کیا، ضیاء سے ریاست کے ساتھ پارلیمنٹ پرست بھی واقف تھیں کیونکہ ضیاء ہی تھا جو ہر سمت انکے جھوٹے قوم پرستی کے تصویر کو نواجونوں میں دکھا کر انہیں پارلیمنٹ پرستوں سے ہمیشہ دور ہی رکھتا، ضیاء آزاد تھا، وہ کسی کے دھوکے میں آنے والا نہیں تھا، وہ آزاد تھا اس نے آزادی کی راہ چنی تھی۔

تحریک کے شروعات میں سیاسی تحریک جس عروج پر تھا ضیاء اپنے علاقے سمیت ارد گرد کے علاقوں میں سب سے ایکٹو رہنے والا کارکن تھا، اس نے ہمیشہ ایک کارکن کی حیثیت سے ایک رہنماء کا کردار ادا کیا، وہ جہاں رہا با کمال رہا، کبھی اخبارات کی زینت بننے کے لیئے ہڑتالوں میں گرفتاری نا دی حالانکہ پولیس لسٹ میں سب سے پہلے ضیاء کا ہی نام رہتا۔

وہ کام کرنا جانتا تھا، وہ دشمن کو ہر محاظ پر شکت دینا جانتا تھا، جس طرح طلباء سیاست میں رہ کر ہمیشہ پولیس اور پارلیمنٹ پرستوں کے لیئے سردرد رہا، اسی طرح ایک گوریلہ سپاہی بن کر مکمل ٹیکٹس کے ساتھ کوئٹہ، حب، زہری، خضدار، بولان، قلات، میں بہترین جنگجو کے طرح دشمن پر قہر بنتا رہا، وہ مکمل تھا وہ آزاد تھا، وہ شعور کے اس بلندی پر تھا کہ اس سے آگے شاید شعور کے سرحدیں ختم ہوتی کیونکہ وہ سوچنے میں آزاد تھا۔

شھید دلجان آخری سانس تک ایک گوریلہ رہنما بن کر دشمن پر برستا رہا اور آخر کار اپنے ہمراہ شھید بارگ کے ساتھ مل کر خود کو ہمیشہ کے لیئے امر کر گیا۔ وہ مرنے کو قومی رازوں سے زیادہ اہمیت دے گئے۔ یہ کیسے لوگ ہوتے ہیں، جو موت کو خود ہی چُنتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ “ مرنے کا اختیار کوئی مجھ سے نہیں چِھین سکتا۔ وہ میرا خود کا فیصلہ ہو گا” بیشک بہت کم لوگ یہ اختیار خود چنتے ہیں اور وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔