شہید فتح عرف چیئرمین
تحریر: جمعہ بولانی
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ لمحوں کی یہ زندگی دنیا میں بہت کچھ سکھادیتا ہے اور عظیم وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہمشہ اپنی تاریخ، اپنے وطن اور اپنے مقصد اور قوم پر قربان ہوتے ہیں۔ جو اپنے غلام بدن کو، اپنے زندگی کو آنے والے نسلوں کے لیئے وقف کرتے ہیں۔ یہی لوگ دنیا کے عظیم ہستی اور عظیم لوگوں میں شامل ہوتے ہیں اور اس مادر وطن کے بہادر فرزند شہید فتح عرف چیئرمین نے شہید مجید اول، شہید مجید ثانی، شہید امیر بخش سگار، شیہد شکور، شہید درویش اور دیگر سینکڑوں شہیدوں کی طرح کوئٹہ کے شیہدوں کے باب میں ایک اور اضافہ کیا۔
جب تحریک اپنے عروج پر گامزن تھا، شہید اکبر خان بگٹی، شہید بالاچ، شہید غلام محمد، شہید شیر محمد، شہید لالا منیر و شہید رسول بخش مینگل اور ہزاروں شہیدوں کا کارواں زورو شور سے اپنے منزل کی طرف رواں دواں تھا، اسی دوران نوجوان تحریک میں بھر پور حصہ لے رہے تھے اور اسی دوران شہید رشید جان، شہید خلیل جان، شہید ملک، شہید شکور، شہید ظہور اور دیگر سنگتوں کے ہمراہ فتح جان نے اپنا جدوجہد کا آغاز کیا۔
کوئٹہ کے تنگ گلیوں اور کوچے میں رہنے والے اس فرزند نے کوئٹہ اور مستونگ میں اپنے ابتدائی کام شہید خلیل جان، شہید رشید جان کے رہنمائی میں شروع کیا۔ اپنے ان استادوں کے ساتھ دوشمن کے لیئے ان شہروں کو محشر بنا رکھا تھا۔
دیکھنے میں جاندار بدن، سخت مزاج اور حوصلہ و ہمت کا اعلیٰ مثال اپنا آپ ہی تھا اور اپنے اوپر بھروسہ و یقین اور پختا ارادے سے اپنے کام سر انجام دیتا، جو کام سوچتا ان پر ضرور عمل کرتا۔ جس کام کا ایک بار سوچتے تو وہ کام جتنا ہی سخت کیو نا ہوتا، وہ اپنے سوچ و سمجھداری سے انہیں پورا کرکے ہی جھوڑتا۔ اپنے شہیدوں، اپنے سنگتوں کے ساتھ مخلصی، ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ پیش آتا، جو بات دل میں ہوتا بجائے غیبت کرنے کے انہیں ایک کونے میں بلاکر بڑے پیار سے سمجھاتا اور کسی کے لیئے دل میں کسی قسم کا کھوٹ نہیں رکھتے تھے۔
ہر وقت اپنے تحریک و جدوجہد کے بارے میں سوچتے تھے اور ان پر نئے نئے حکمت عملیوں کے ساتھ کام کرتے رہتے، ہر وقت دشمن کو نئے نئے طریقے سے شکست و مات دیتا ریتا اور ہمشہ سے یہی کہتے میں شہید خلیل جان و رشید جان کے استادی میں جب کام سر انجام دینے نکلا تو مجھے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوا کیونکہ میں ہمشہ انہیں میں بڑے غور سے دیکھتا، وطن کے وہ جانباز سپوت ہمشہ بجلی کی طرح دشمن پر برستے تھے اور وہ خود بھی انہیں کو اپنا آئیڈیل بنا کر ان کے جیسا دشمن پر کامیاب حملے کرتے۔
جب بولان کے کیمپ میں مجھ سے ملے اور میرے بارے میں پہلے سے انہیں خلیل جان و رشید جان نے بتایا ہوا تھا، اسلیئے بہت جلد ہی گھل مل گئے۔ اسی دن سے جدوجہد کے ساتھ ساتھ میرا اور انکا دوستی کا بھی سفر شروع ہوا، مختلف اوقات میں میں اور چیئرمین بہت سے محاذوں و جنگوں اور مشکلات میں ایک ساتھ ہی تھے۔ ایک دفعہ گشتی مشن پر تھے، جہاں ہمیں ہیلی کاپٹروں اور فوج نے گھیرے میں لے لیا، جہاں ہمارے دو 2 ساتھی شہید اور کئی ساتھی زخمی بھی ہوئے، ان زخمی ساتھیوں میں سے ایک ساتھی شہید چیئرمین بھی تھے، جو ان ساتھیوں کے نسبت کچھ زیادہ ہی زخمی ہوئے تھے۔
دوستوں کی طرف سے میری ذمہ دری زخمی ساتھیوں کو دشمن کے گھیرے سے نکالنا تھا، جب میں انہیں اور دوسرے زخمی ساتھیوں کو تھوڑی دوری پر لے گیا اور ابھی تک ہم دوشمن کے سخت گھیرے میں تھے،اور ہم مرہم پٹی اور دوا میں مصروف تھے کہ اتنے میں زمینی فوج نے ہم پر نزدیک سے حملہ کردیا اور ہمارے پاس گولیاں بھی کم رہ گئیں۔ ہم یہی سوچنے میں لگے کہ اب کیا کرنا چاہیئے، کیا نہیں کرنا چاہیئے۔ ہمارے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ اتنے میں ایک اور گولی چیرمین کے پیر میں لگ گیا، میں ہمت کرکے جب چیئرمین کے پاس پہنچا تو انکے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھا، جو میرے ہمت و حوصلے کا سبب بنا اور باقی دوست زخمی تھے، ہم دو ساتھی لڑ رہے تھے، چیئرمین ہمارے پاس میگزین پھینک رہا تھا، اتنے میں دوسرا ساتھی بھی زخمی ہوگیا۔ اوپر سے ان گرمیوں کے بڑے دنوں میں لگ بھگ آٹھ سے نو گھنٹوں سے ہم دوشمن کے ساتھ لڑ رہےتھے اور جب جیسے جیسے شام ہونے لگی تو دشمن کا بھی حوصلہ اور حملہ کمزور پڑنے لگا، جیسے ہی رات ہوئی، میں مورچے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
تب میں نے ساتھیوں سے کہا، اب آپ چل سکتے ہو، چیئرمین نے کہا، آپ نکل جاو، اب ہمارا وقت آگیا ہے، سر زمین کا قرض چکانے، اب ہمارا شہید ہونے کا وقت آگیا ہے۔ تب میں نے انہیں ہمت دیکر کہا نہیں سنگت تھوڑا ہمت کرو، ہم انشاللہ نکل جائیں گے، میں نے انکے ہاتھوں میں لکڑیاں دیکر انہیں نکلنے کے لیئے کہا، خون انکے جسم سے پانی کی طرح بہہ رہاتھا، انہوں نے کہا سنگت بس ہمارا کمر رومال سے باند لو، پھر ہم نکل پڑے، تھوڑی ہی دوری پر اتنے میں شہید ماما مہندو اور دوسرے ساتھی بھی پہنچ گئے۔ وہ مدد کیلئے آگے بڑھے لیکن چیئرمین نے خود نکلنے کا فیصلہ کیا اور یہ کہا کہ ابھی میں اور سنگتوں کو تکلیف نہیں کرسکتا،
اس کے بعد ہم چل پڑے، ایک رات گذرنے کے بعد صبح اا گیارہ بجے تک اپنے کمزور جسم کے باوجود مسلسل پیدل سفر کرتے رہے، جب ہم محفوظ ٹھکانے تک پہنچے، تب بھی چیئرمین کے ہمت و حوصلے بلند تھے اور جنگ کا جذبہ انکے سر پر سوار تھا۔
میں یہ بتاتا چلوں کہ چیئرمین نے کہا سنگت ہم مارے جاتے تو ہم شہید ہوتے لیکن اللہ پاک نے ہمیں زندگی دیا، شاید دشمن کو مزید سبق دینے کے لیئے اور کچھ وقت بعد اپنے مکمل علاج کے بعد، وہ ایک بار پھر دوشمن پر آگ کی طرح برسنے لگے۔
کچھ عرصے بعد ناگاہو کے لیئے روانہ ہوئے اور ہمشہ ایک ہی خواہش رکھتے تھے کہ میں استاد جان سے مل لوں اس وقت استاد جان بھی ناگاہو میں موجود تھا اور ناگاہو پہنچتے ہی انکا یہ دلی خواہش بھی پورا ہوا، اجب استاد نے انہیں انکے علاج کی پیش کش کی تو انہوں نے استاد جان سے کہا “نہیں استاد جان میں ٹھیک ہوں، مجھے ابھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں، مجھے ابھی آپ کے ساتھ کام کرنا ہے، میرا ایک خواہش تھا آپ کے ساتھ کام کروں اور استاد جان کے ساتھ پھر سے بولان کے پہاڑوں کا رخ کیا۔”
بولان پہنچتے ہی حالات اور خراب ہوئے، آپریشن کے اوپر آپریشن ہورہے تھے، دشمن کی زمینی فوج، جیٹ اور ہیلی کاپٹر بھر پور حصہ لے رہے تھے، حالات کچھ زیادہ ہی خراب تھے اور چیرمین اپنے حکمت عملیوں کے تحت دشمن سے دو بہ دو جھڑپ کرتے رہے اور دوشمن کے کئی ہلکاروں کو زخمی و موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔
انہیں آپریشنوں میں استاد جان زخمی ہوئے، استاد جان زخموں کی وجہ سے اپنے علاج کے لیئے چھٹی پر گئے، مجھے اور چیئرمین کو بھی ساتھ لے گیا۔ کچھ عرصے بعد ہماری چھٹی پوری ہوئی تو پھر سے ہم دونوں بولان پہنچ گئے، اپنے محاذ پر پہنچتے ہی اپنے کاموں میں مصروفِ عمل ہوئے اور بہت سے کاروائیوں میں ہم چیئرمین کے سوچ و سمجھ و حکمت عملیوں کی وجہ سے کامیاب ہوئے۔
پھر ایک رات ہم نیٹ ورک پر بیٹھ کر ریحان جان کے ساتھ بات چیت کررہے تھے، جس میں ہم ریحان جان سے چھیڑ چھاڑ بھی بہت کررہے تھے۔ اسکے بعد ہم سو گئے، میں نے ریحان جان کو خواب میں دیکھا، ریحان جان اور چیرمین ایک ساتھ تھے، تب میں عجیب خیالوں و سوچوں میں گم رہا اور صبح ہوتے ہی میں نے چیئرمین سے قصہ کیا، چیئرمین ہنستے ہوئے بولا “اللہ خیر کیک”
ایک دن بعد جب ہم وتاخ میں سنگتوں کے ساتھ بیٹھ کر محفل میں مشغول تھے کہ اتنے میں ایک دوست آکر چیئرمین کو سائیڈ لے گیا اور جب چیئرمین واپس آرہا تھا تو انکے چہرے پہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو تھے، اور وہ پھر زور و شور سے گلا پھاڑ کر آواز لگانے لگا “ریحان جان گوئے درے، ریحان جان گوہے درے، قربان مس، قربان مس، وطن ء تینا فداہی کے، فداہی کرے۔( ریحان جان جیت گیا، ریحان جان جیت گیا، قربان کرگیا خود کو، قربان کرگیا خود اپنے وطن کا فدائی بن گیاٰ) وہ پاگلوں جیسی حرکتیں کررہا تھا اوریہ سن کر میرے بھی ہوش اڑ گئے۔
پھر مجھ سے کہا یار نیٹ ورک پر چلو اور ہم نیٹ ورک پر پہنچتے ہی استاد جان کا نمبر ملایا اور استاد جان کو مبارک باد دی، استاد جان نے حوصلہ و ہمت سے مجھے اور چیئرمین کو سمجھا کر ہمارا ارادہ اور بھی مضبوط کردیا۔
پھر چیئرمین اور میں عجیب کیفیت میں مبتلا ہوئے اور ریحان جان کے خیالوں میں کھوگئے اور اس دن کے بعد چیئرمین ایک اور روپ اختیار کرگیا، کچھ دن گذر گئے تو چیرمین استاد کے ساتھ حال احوال کرنے لگا اور کہا استاد جان مجھے بھی ریحان جان جیساں قربان ہونا ہے،اب میرا فیصلہ یہی ہے۔ اب میرے لیئے کوئی اچھا سا ٹارگٹ دیکھ لو۔ تو استاد جان نے انہیں کہاں ابھی آپ ریحان کے بعد جذباتی تو نہیں ہو اور چیئرمین نے کہا نہیں استاد جان میں پورے ہوش و حواس میں یہ فصلہ لے رہا ہوں اور استاد جان نے خوشی اور جذبے سے کہا آپ جیسے یا ریحان جان جیسے جانباز سوچ رکھنے والے میرے ساتھ ہیں، تو ہمیں کوئی بھی دشمن ہرا نہیں سکتا۔
یہ بات سن کر اپنے حکمت عملیوں کے ساتھ اور تیزی سے دشمن پر حملہ آوار ہوتے رہے اور بجلی کی طرح دشمن پر برستے رہے ، یہاں تک کے شہید ریحان جان کے نام کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ کر دوشمن کو ان کے مورچوں سے نکال کر موت دیتا رہا اور اپنے ٹولی کے ساتھ کامیاب حملے کرتے رہے اور اسکے بعد یہ وطن کے عاشق، پاگلوں جیسا گھومتا رہا اور آخری گولی اور آخری سانس تک دوشمن کو ہکل دے کر لڑتا رہا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔