شہدائے میہی – فرید شہیک

198

شہدائے میہی

تحریر: فرید شہیک

دی بلوچستان پوسٹ

میہی ایک چھوٹا سا مشکے کا گاؤں ہے، وہاں آبادی بہت کم ہے لیکن اس آبادی میں فکر اور زانت بہت زیادہ ہے، جہاں کئی نرمزاروں نے اپنا خون بہایا ہے، اپنے گلزمیں کے لیئے جان قربان کردی ہے اور اس جہاں میں ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ آج ان شہیدوں کے جذبے اور فکر کی وجہ سے ہمارا کاروں اپنے منزل کے طرف رواں ہے۔

30 جون 2015 کو مشکے میہی میں آزادی پسندوں اور پاکستانی فورسز کے درمیان ایک جنگ ہوا تھا، جہاں 13 آزادی پسند سرمچاروں نے اس جنگ میں شہادت نوش کی تھے. 30جون 2015 کے اس جنگ کے دوران میدان میں اینے دوشمن کو شکست دینے کے لیئے ان نرمزاروں نے اپنے جانوں کو داو پر لگا کرشہادت کے مرتبت پر فائز ہوئے تھے.

شہید سفرخان، شہید زاکر، شہید رمضان، شہید فرھاد، شہید شہیک جان، شہید الم خان، شہید شاہ فیصل ، شہید رفیق، شہید نذیر، شہید خدانظر، شہد گاجی خان، شہید یونس، شہید شہیک جان اور ان کے ساتھیوں سے سارے علاقہ مطمیئن اور متاثر تھا کیونکہ شہیک ایک حقیقی جہدکار تھا اور اس کا مزاج ہر شخص کے ساتھ دوستانہ و خوشگوارانہ تھا۔ وہ ہر کسی سے خوش مزاجی سے پیش آتھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ شہید شہیک جان کی سوچ مکمل اپنے جہد کے بارے میں تھا، وہ ہر وقت یہی سوچتا کہ جہد کے بابت مجھے کیا کرنا ہے، میں کون ہوں اور ہمارا قوم کس حال میں ہے.

وہ اپنے اسکول کے وقت بھی اپنے دوستوں سے پیار و شفقت سے پیش آتا اور اپنے تعلیم پر دھیان دیتا۔ آپ نےFA تک بہت محنت سے پڑھائی کی، آگے آپ تعلیم جاری نا رکھ سکے، ایک طرف گھر کو سنبھالنے کی ذمہ داری آپکے کاندھوں پر تھی اور دوسری طرف غریبی کا بوجھ، اس لیئے آپ نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔

30جون 2019 شہیک جان اور اسکے ساتھیوں کے شہادت کا دن ہے، اس دن شہید شہیک اپنے آخری پیغام میں اپنے قوم کو یاد دلاتا ہے کہ ہم غلام نہیں ہیں، ہمیں غلام بنایا گیا ہے، ہمیں اس غلامی کو توڑنا ہے۔ جب اس جنگ کے دوران شہیک زخمی ہوتا ہے تو سب دوست پریشان ہو جاتے ہیں، تب شہیک جان کا چاچا شہید سفرخان کو معلوم ہوتا ہے کہ شہیک بہت زخمی ہے، شہید سفرخان شہیک کے پاس آنے کےلیئے مجبور ہوتا ہے لیکن چاروں طرف پاکستانی آرمی گھیرا جمائے ہوئے ہوتا ہے، شہید سفرخان، شہیک جان کے پاس جانے کےلیئے روان ہوتا ہے اور راستے میں ہی شہادت نوش کرتا ہے اور شہیک کے پاس پہنچ نہیں پاتے۔

شہید سفرخان کا آخری پیغام ہوتا ہے “آزاد بلوچستان زندہ باد، سب دوست اپنی جنگ اپنے دشمن سے آخری حد تک لڑو، اب اور کوئی راستہ نہیں ہے۔” بہت سے دوست اس جنگ میں شہادت نوش کرتے ہیں اور سب کے پاس گولیوں کی بھی کمی تھی، شہید ذاکر اور اس کے دوست اس جنگ میں موجود نہیں تھے لیکن اس کے باوجود شہید ذاکر اور اس کے کچھ دوستوں نے پیچھے سے گھیرے کو توڑدیا اور سب دوستوں کو راستہ دیا، اور بہت سے دوستوں کو با حفاظت اس گھیرے سے نکال دیا لیکن خود سب کےلیئے اپنے جان کو قربان کرگیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔