سیندک کے کرپٹ اور رشوت خور افسران – الیاس بلوچ

535

سیندک کے کرپٹ اور رشوت خور افسران

الیاس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ہمارے معزز صحافی برادری اگرکسی کی جھوٹی نماٸش پراترجائیں، تو وہ شاہ کو گدا، زانی کو نیک اور لونڈے باز کو پارسا، حرام خور کو حلال خور گردانتے ہیں، جو کہ نہ صرف زرد صحافت ہے بلکہ غیر اختیاری صحافت کے زمرے میں شمار ہوجاتا ہے۔ اگر صحافی حضرات یا کوئی بھی لکھاری حق بات لکھنے سے قاصر ہے تو وہ نہ صرف مقدس پیشے کو بدنام بلکہ معاشرے میں بدامنی کوفروغ دے رہا ہے۔ اس طرز عمل کے ذریعے وہ مظلوم کے مقابلے میں ظالم کی پیروی کرنے والے شمار ہونگے اور روز محشر اللہ کے سامنے جوابدہ بھی ہونگے۔

اگر ہم اخباروں اور سوشل میڈیا پر نظر دوڑاٸیں تو سیندک گولڈ پروجیکٹ کے بارے میں جتنی بھی رپورٹیں لکھی گئی ہیں، وہ تمام کی تمام خالد گل اور مینیجمنٹ کی حمایت میں لکھی گئی ہیں۔ ان رپوٹس کو لکھنے کی بنیادی وجہ گذشتہ مہینے چاٸنیز ڈائریکٹر خالد گل کی سربراہی میں دالبندین پریس کلب کے لیئے لاکھوں روپے کا چیک پریس کلب کے صدر کے ہاتھوں میں تھمانا تھا۔ جسکی وجہ سے صحافیوں کے منہ پر تالا اور ہاتھوں پر ہتکھڑیاں لگ گئیں، یہی وجہ ہے کہ صحافی حضرات کرپٹ آفیسروں اور بدنام سیندک پروجیکٹ کی حمایت میں بول رہے ہیں۔

گذشتہ سال پاکستان کے ایک ٹی وی چینل پر سیندک پروجیکٹ کے مینیجنگ ڈاٸریکٹر پر چیئرمین نیب کی طرف سے خورد برد کا اسکینڈل منظرعام پر آیا لیکن چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہوتے ہی تمام کیسز دوبارہ منظرعام سے غاٸب کر دیٸے گئے، ہم سیندک پروجیکٹ کے ملازمین یہی تاثر اخذ کرتے ہیں کہ یہ سستی شہرت اور اپنے خورد برد چھپانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جو ایم این اے ہاشم نوتیزی کے ایماء پر بی این پی کے صدر کے سامنے ایم ڈی سے منظور شدہ چیک سیندک پروجیکٹ کے فنڈز سے دالبندین گرلز کالجز کے لیکچرارز کی تنخواہوں کی ادائیگی کا فوٹو سیشن سوشل میڈیا پروائرل کر رہے ہیں جبکہ موصوف کا خود اپنے ڈیپارٹمنٹ کا ایک ملازم رشید خان ڈمپر ڈرائیور جو ٹریفک حادثے میں جانبحق ہوا تھا تو یہی خالد گل ملازموں سے چندہ مہم شروع کررہا تھا، ہر ملازم سے پانچ سے لیکر آٹھ ڈالر تک کٹوتی کی گئی اور اسطرح 8×1500=16080000 رقم جمع ہوئی۔ اسی طرح سیفٹی پر مختص رقم سے بھی ہر ملازم سے 2 ھزار روپیہ کٹوتی کی گئی۔

دریں اثنا سالانہ بجٹ کے رقم سے بھی فی ملازم سے 5 ہزار روپیہ کٹوتی کی گئی، اسی طرح monthly performance کو 20 ڈالر سے کم کر کے 10 ڈالر کر دیا گیا، مجموعی طور پر ایک مہینے میں اربوں روپے کے خوردبرد کررہے ہیں۔

اسکریپ کے مد میں بھی سالانہ کھربوں روپے خورد برد کے شکار ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے یہ ساری کٹوتیاں حالیہ ملازمین کے ہڑتال کے نتیجے میں کی گئی ہیں، نام نہاد ایم ڈی رازق سنجرانی میڈیا پر تو ملازمین کے مساٸل کی حل کی یقین دہانی تو کراتے ہیں لیکن سب دعوے بے سود ثابت ہوئے۔

افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ حادثے کی صورت میں ملازمین کے بونس bonus سے کٹوتی کرکے متعلقہ شخص کو نوازا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیندک پروجیکٹ کے فنڈ سے آج تک کسی مستحق افراد یا بیمار ملازم کو کچھ نہیں ملا، سیندک پروجیکٹ کے فنڈ سے گرلز کالج کے لیکچراروں کے تنخواہوں کی ادائیگی خوش آئند بات ہے لیکن سیندک پروجیکٹ کے فنڈ مسکین اور مستحق افراد پر خرچ کیا جاتا تو اچھا ہوتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔