رسمِ دودا اوّل اور زہری
تحریر: نہال خان زہری
دی بلوچستان پوسٹ
اپنوں میں رہ کر غیروں کیلئے مخبری کرنا اور دشمن کیلئے راہ ہموار کرنے والے عناصر اب مادر وطن کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں، قوم کی جانب سے سرداروں اور نوابوں کے دقیانوسی و فرسودہ نظام کو مسترد کرنے کے بعد ریاستی ایماء پر کام کرنے والے قوم دشمن صفوں میں سردار و نوابوں کی بھاری اکثریت نظر آتا ہے۔ اس وقت زہری علاقہ ہمارے زیرِ غور ہے جس میں آج بھی وہ کردار ہمیں نظر آتے ہیں، جو شہید بابو نوروز خان اور شہید سفر خان کے قومی جدوجہد کے ادوار میں ریاستی آلہ کار بن کر ان بہادر بلوچ جنگجوؤں کو نقصان پہنچاتا رہا، بلکہ ان بہادروں کی شہادت میں ریاست کی جانب سے اہم کردار بن کر سامنے آیا تھا جسے آج “دودا اوّل” کے نام سے پہچانا جاتا ہے، اس کے کسی حادثاتی موت کے بعد اس کے بنائے ہوئے رسم(ریاستی مخبری) کو قائم رکھنے والوں میں دودا کا اپنا خاندان سرِ فہرست ہے.
ریاستی مخبری کرنے والا ہر شخص دیمک کی طرح ہوتا ہے، ایک آزمودہ نسخے کے مطابق دیمک کا خاتمہ مٹی کے تیل سے کیا جاتا ہے، لیکن جب دیمک فصلوں پر حملہ کرے تو اُسے مٹی کے تیل سے ختم کرنے کا جواز ہی باقی نہیں رہتا کیونکہ فصل پر مٹی کا تیل دیمک جیسے تباہی مچانے والے کیڑے کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ فصل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، اس لیئے دہقان کو ایک الگ طریقہ اپنانا پڑتا ہے، اسی طرح مخبر بھی قوم کے بیچ میں رہ کر دشمن کیلئے دیمک کا کردار ادا کرتا ہے اور قوم دوست جہد کار اس مخبر کے خلاف تب تک کوئی ایکشن نہیں اُٹھا سکتے ہیں جب تک قوم اس کے قوم دشمنی سے آشنا نہ ہو، لیکن وقت فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتی، دیمک کے موت کے دن اُس وقت قریب آ جاتے ہیں جب بارش کی بوندیں گرنے کے فوراً بعد پر نکال کر باہر نکل آتا ہے، چند وقت اُڑان بھرنے کے بعد مر جاتا ہے، اور مخبر اسی طرح سستی شہرت کی لالچ میں آکر اُڑان بھرنا شروع کرتا ہے اور دیمک کی طرح جب اُس کے پر ٹوٹ کر گرجاتے ہیں تو وہ اپنے آخری لمحوں کی گنتی شروع کر لیتا ہے.
زہری میں بڑھتا ہوا مخبری کا رسم پھر سے سر اُٹھانے لگا ہے، مگر مخبری کی پگڑی باندھنے والوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ اس سر زمین پر اگر رسمِ دودا اوّل کی بنیاد ڈالی گئی تھی تو اسی سر زمین پر صدیوں پُرانی بلوچ مزاحمت کا پرچم پہلے سے لہرا رہا تھا، اور تاریخ آج سفر خان و نوروز خان کو سنہری الفاظ میں یاد کر رہا ہے جبکہ دودا اوّل کو مخبری کے پنوں میں یاد کرتا ہے، تُم تاریخ سے کچھ نہ سیکھو لیکن تاریخ تمہیں بہت کچھ سکھائے گا، سستے آلہ کار بننے سے پہلے ایک لمحے کیلئے ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر پھر مخبری کا سند حاصل کرلینا کہ صدیوں سے چلتا ہوا بلوچ مزاحمت کے خلاف ہر اقدام قومی جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کیلئے وہی عمل بلوچ مزاحمتکاروں کی جانب سے اپنایا جائےگا جو ریاست کے ہر ادارے کیلئے عمل میں لایا جاتا ہے.
کیپٹن قدیر کے حادثاتی موت کے بعد اُس پر قوم دشمنی کے چرچوں سے تو آپ نے کچھ نہیں سیکھا، لیکن جلیل زہری اپنی منطقی انجام تک پہنچایا گیا، کیا اُس کے کردار کے بعد موت سے تمہیں کوئی سبق نہیں ملا؟ کہ آج چار نام نہاد لیویز کمانڈو اور ریاستی عسکری آشیرباد کو اپنا کر بڑے عہدے کے گمان میں قوم دشمنی کا دامن تھام لیا ہے؟ سستی شہرت، لالچ، دولت کی ہوس، اپنے عیاشیوں کیلئے خطیر رقم کے عیوض صدیوں سے چلتا ہوا قومی تحریک کے خلاف اقدام اُٹھانا، لاچار و غلامی میں برسوں سے پسے ہوئے قوم کی خاطر لڑنے والوں کے تعاقب میں رہنا اور ریاستی مخبری کے نوکری کو سرانجام دینا کیا قوم دشمنی نہیں؟
لیویز فورس میں اکثریت بلوچ ہونے کی وجہ سے ان پر ابھی تک بلوچ قومی فوج کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا لیکن گذشتہ چند مہینوں سے لیویز فورس زہری اور لیویز فورس پنجگور نے وہ رویے قومی جہد کے خلاف اپنائے ہوئے ہیں، جو ریاستی ادارے برسوں سے بلوچستان کے طول و عرض میں آزما رہا ہے اور مزید اس پر عمل پیرا ہے، لیویز فورس کو بار بار تنبیہہ کرنے کے باوجود لیویز میں چھپے ریاستی ہتھکنڈوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا، اس لیئے اب راجی لشکر نے ان کے خلاف اقدام اُٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ وہ عناصر ہیں جو کبھی شفیق مینگل، کوہی خان مینگل، ثناءاللہ زہری، سراج رئیسانی، راشد پٹھان اور قدوس بزنجو جیسے ریاستی آلہ کاروں کیلئے ٹارچر سیلز چلاتے تھے، جنہیں بلیک منی کی طرح وائیٹ کرکے لیویز میں بھرتی کیا گیا تاکہ لیویز کے یونیفارم کے آڑ میں اپنے عزائم کو دوام دے سکیں اور ریاست کیلئے راہ ہموار کرتے رہیں.
خضدار لیویز فورس میں اکثریت ایسے ریاستی ٹارگٹ کلروں کی ہے جنہوں نے کبھی خضدار کو شمشان گھاٹ بنا دیا تھا، جس کے اثرات آج بھی خضدار میں نظر آتے ہیں، نام نہاد ریاستی عہدے دار وحید شاہ انہی لوگوں کے گندگیوں پر سفید چادر چڑھانے آیا تھا اور ان بھیڑیوں کو لیویز کے وردی میں لاکر خود رفو چکر ہوگیا.
زہری کے عوام بالخصوص نوجوان طبقہ مخبری جیسے غلیظ اور قوم دشمن کردار سے جتنا بھی دور رہے گا اُتنا ہی قومی آزادی کی جانب اپنا روشن مستقبل انہیں نظر آنے لگے گا، راجی لشکر موجودہ اور آنے والے نسلوں کی مکمل آزادی اور خودمختاری کیلئے مزاحمت کا طریقہ اپنایا ہوا ہے، اپنے گھروں سے دور سالوں سال پہاڑوں میں گوریلاؤں کی زندگی گذار کر آپ کے روشن مستقبل کیلئے جنگ لڑنے والے کبھی بھی آپ کا دشمن نہیں ہوسکتے.
انگریز کے بنائے ہوئے نواب و سرداروں کے چکی میں پسنے والے ہمارے زہری کے عوام سے یہی التماس ہے کہ خدارا ایسے ریاستی آلہ کار اور سرداروں کے بھٹیوں کا ایندھن نہ بنے کب تک چہارم و ششک کے آگ میں جھلستے رہیں گے؟ نام نہاد لیویز فورس انہی وحشیوں اور غیر فطری ریاست کےلیئے ڈھال بن کر کام کر رہا ہے تاکہ ان کا فرسودہ نظام قائم رہے اور اُن کا راج مزید سالوں تک چلتا رہے، اور نام نہاد مذہبی ٹھیکدار مسجد کے منبر پر بیٹھ کر ان سرداروں اور ریاستی ظلم کو ہمارا مقدر قرار دے کر ان ہلاکو خانوں کیلئے راہ ہموار کرتا ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔