ذاکر مجید کی گمشدگی اور بی ایس او کا 8 جون کا فیصلہ – توارش بلوچ

370

ذاکر مجید کی گمشدگی اور بی ایس او کا 8 جون کا فیصلہ

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قومی پروگرام سے عبادت کی حد تک محبت، قومی سوچ اور فکر کے ساتھ قومی آزادی کی جنگ میں نوجوان لیڈر ذاکر مجید اپنے آپ میں ایک عہد کا نام ہے۔ وہ عہد جو ایک نظریہ بن کر ہر بلوچ نوجوان کے اندر سمویا ہوا ہے، ذاکر مجید ایک عام انسان سے بڑھکر بلکہ ایک عام انقلابی سے بڑھکر ایک عملی انقلابی دوست ہے، جس کیلئے مقصد واضح تھا، جو اپنے قومی آزادی کی خاطر کسی بھی ریاستی جبر، وحشت، تشدد، بربریت برداشت کرنے کو تیار تھا۔ ذاکر مجید بلوچ عملی سیاسی جدوجہد پر بھروسہ کرتا تھا، اُس کے ہاتھ میں بندوق نہیں تھا اور نہ وہ دشمن کے چیک پوسٹوں پر حملہ آوار ہوتا تھا بلکہ ایک مکمل سیاسی پروگرام کے ساتھ قومی آزادی کا پروگرام گھر گھر پہنچا رہا تھا، کراچی سے لیکر کوئٹہ اور مکران۔ ذاکر کی پہچان بلوچستان کے کونے کونے سی تھی، ذاکر بلوچستان کے ہر کونے میں جاتا تھا اور قومی پروگرام کے حوالے سے تبلیغ کرتا تھا، ذاکر کی زندگی انقلاب سے وابستہ تھا، وہ انقلاب اور قومی آزادی کی خاطر سب کچھ سہنے کو پہلے سے تیار بیٹھا تھا، ذاکر قومی سوچ اور فکر کے مالک ساتھیوں میں سے ایک تھا۔

وہ کھل کر مزاحمتی سیاست کو سپورٹ کرتا تھا جبکہ اس کو اس کے نتائج بھی معلوم تھے کہ مزاحمت کی سیاست میں جیل زندان اور موت ہے لیکن اُس کیلئے قوم سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا، وہ لوگوں کے درمیان ہوا کرتا تھا اور وہاں لوگوں کی تربیت کرتا تھا لیکن قابض، سامراج دشمن کو بھی اس بات کا اندازہ تھا کہ ذاکر جتنا وقت گراؤنڈ پر رہے گا، ذاکر جتنی مدت تک بلوچ قوم کی تربیت کرتا رہے گا، پاکستان کی قبضہ گیریت اتنا ہی زیادہ خطرے میں پڑے گا۔ ذاکر قوم اور اپنے لوگوں کے اندر موجود تھا اور یہی دشمن کا سب سے بڑا ڈر تھا کہ ذاکر لوگوں کو ریاست کی حقیقت سے آشنا کرے گا، اس لیئے قابض ریاست بربریت اور وحشت پر مبنی وطیروں پر اتر آیا۔ جب عوامی سطح پر ذاکر کا سامنا کرنے میں ریاست ناکام ہوا تو ریاست نے بندوق کے نوق پر اپنے جبری قبضے کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ذاکر مجید کو دیگر ہزاروں لاپتہ افراد کی طرح گمشدہ کر دیا۔

قابض ریاستیں اور ان کی جبر پر مبنی فوجیں اور ایجنسیاں کبھی بھی کسی آزادی پسند ساتھی کا عوامی سطح پر مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں قا بض کا اصل چہرہ سب کے سامنے عیاں ہوگا، اسی بنا پر قابض پاکستانی فوج اور ایجنسی نے ذاکر کو لوگوں سے دور کر دیا، اس لیئے اس کو پابند سلال کر دیا لیکن کیا سوچ و فکر اور نظریئے کو کبھی پابندسلال کیا جا سکتا ہے؟ کیا دشمن ذاکر مجید کے افکار و خیالات اور اس کے تعلیمات کو پابندسلال کر سکتا ہے؟ بالکل نہیں اور آج ذاکر مجید جان کی تعلیمات فکر اور افکار بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔

بلوچ طلباء کا رہنما ذاکر مجید بلوچ اپنے جوان عمری میں بی ایس او آزاد کا حصہ بنے اور بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار رہے، بی ایس او کے نوجوانوں سمیت بلوچ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرتے رہے۔ بی ایس او آزاد کی لیڈرشپ اور ممبران نے ذاکر مزید کی صلاحیتوں اور قابلیت کو دیکھ کر 2008 کے کونسل سیشن میں اس کو تنظیم کے مرکزی وائس چیئرمین کے عہدہ پر فائز کیا اور ذاکر مجید اپنے دوستوں کے امیدوں پر پورے اترے اور گمشدگی تک اپنے پروگرام کے ساتھ مخلصی سے جدوجہد کرتے رہے اور کسی بھی طرح اپنے قومی پروگرام کے ساتھ سودے بازی نہیں کی اور نہ ریاستی ڈر و خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹے بلکہ گمشدگی کے دن تک بلوچ نوجوانوں کو قابض فوج اور بلوچستان پر ریاستی قبضہ کے بارے میں آگاہی دے رہے تھے وہ نہ صرف بی ایس او کے ایک اہم ساتھی ہیں بلکہ قومی آزادی کے جدوجہد میں ذاکر مجید جان ایک بڑا مقام رکھتے ہیں، ذاکر مجید کی بیباکی خلوص محنت وطن دوستی جزبہ الوطنی اور قومی پروگرام کے ساتھ انتہائی مخلصی سب بلوچ نوجوانوں کیلئے مشغل رہ ہے کہ وہ ذاکر مجید کی راہ کا انتخاب کرتے ہوئے ریاستی قابض فوج کے خلاف بلوچ قومی آزادی کے جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔

2016 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد جس کا بلوچ قومی آزادی میں ایک نہایت ہی اہم مقام ہے نے اپنے سابقہ وائس چیئرمین ذاکر مجید کی 8 سال گمشدگی کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اس دن کو بی ایس او بطور بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے کے طور پر منائے گا، جس دن بلوچ قومی آزادی کے فکری اور نظریاتی سنگت رہنما اور بلوچ نوجوانوں کے لیڈر و بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ لاپتہ ہوئے تھے، جنہیں قابض فوج کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ کر لیا گیا تھا تاکہ قومی آزادی کے پروگرام کو گھر گھر تک پہنچانے سے روکیں لیکن ذاکر مجید جان جیسے دیگر ساتھیوں کی محنت لگن اور جذبہ حب الوطنی اور جدوجہد کے سبب آج بلوچ قومی آزادی کا پروگرام بلوچستان کے ہر کونے سمیت بین الاقوامی دنیا کے سامنے عیاں ہے، یقیناً اس کی وجہ ذاکر جان جیسے نوجوانوں لیڈروں کی بیباکی اور محنت و جدوجہد ہے۔ بی ایس او آزاد ہمیشہ سے ایسے فیصلے لیتے آ رہا ہے کیونکہ بلوچ سیاست میں بی ایس او کا عظیم اور اہم کردار سب کے سامنے عیاں ہے بی ایس او صدیوں تک قومی فیصلے کرتے آیا ہے۔ بی ایس او کا موجودہ فیصلہ بھی یقیناً قومی مفادات کے تحت کیا گیا ہے، بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے جس کی ضرورت تھی تاکہ اس دن ہم ایک ساتھ ہی ایک نوجوان ایک لیڈر کی جبری گمشدگی کے بجائے پورے گمشدہ افراد کے بارے میں کمپین کریں تاکہ وہ گمنام لاپتہ افراد کی بھی جدوجہد کو سراہا جا سکے جن کا نام میڈیا تک نہیں آیا ہے۔

2016 کو بی ایس او آزاد کی جانب سے لیئے گئے فیصلے کے بعد سے پیچھلے دو سالوں سے بی ایس او آزاد کے کارکنان سمیت قوم اس دن کو بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے کے طور پر منا رہا ہے، تاکہ ہم دنیا کو اپنے گمشدہ افراد کے بارے میں آگاہی فراہم کر سکیں، بی ایس او کا یہ فیصلہ ایک تنظیمی فیصلے سے بڑھ کر قومی فیصلہ ہے، جس کا ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خیرمقدم کرنا چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔