بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی تاریخ کا ایسا واقعہ ہے کہ جس کی مثال تاریخ میں بمشکل ہی ملتا ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے پارٹی کے اسیر رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے پاکستانی ریاست کے ہاتھوں جبری گمشدگی کو دس سال مکمل ہونے پر کہا کہ 28 جون 2009 کو پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں نے اورناچ خضدار سے ڈاکٹر صاحب کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ یہ عمل پاکستان کی حیوانیت و بربریت و بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم کی بڑی مثال ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے جبری گمشدگی کو 10سال مکمل ہونے پر بھی انصاف نہیں ملنا نہ صرف یہ ثابت کرتاہے پاکستان کا وجود بلوچ قوم کیلئے ایک ناسور بن چکی ہے بلکہ پاکستان انسانی شرف، وقار اور عالمی قوانین کے خلاف بر سرپیکار ایک مافیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 28 جون 2009 کو ڈاکٹر دین محمد بلوچ کودوران ڈیوٹی خضدارکے علاقے اورناچ سے پاکستان کے اداروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ اس کے بعد ان کی خاندان نے بازیابی کے لئے تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کے خاندان کا جدوجہد اب بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کی مثال تاریخ میں بمشکل ہی ملتاہے۔
ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے خاندان نے پاکستان میں انصاف کے نام پر بنے تمام عمارتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ نام نہاد عدلیہ سے انصاف مانگی، جلسے، جلوس اور احتجاج کے تمام ذرائع آزمائے۔ لاپتہ افراد کے خاندان کے ساتھ کوئٹہ سے اسلام آباد تک ٹرین مارچ کی اوردوسری مرتبہ وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے کوئٹہ سے کراچی اورکراچی سے اسلام آباد تک طویل پیدل لانگ مارچ کی لیکن اس بے حس اورانسانیت کے ماتھے پر کلنک ریاست کے زندانوں میں مقید ڈاکٹر دین جان کو بازیاب کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مگر وہ قومی آزادی اور انسانی شرف کے جدوجہد میں ایک نیا باب درج کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کر گئے۔ اس جدوجہد کو انسانی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں مقام حاصل رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک سیاسی رہنما ہیں اور وہ جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے تھے اور اس پر عمل پیر ا تھے۔ سیاست کے علاوہ وہ ماہر ڈاکٹر اور ہردلعزیز انسان ہیں لیکن پاکستان ڈاکٹر صاحب کے سیاست اور سیاسی عمل سے اتنے خائف تھے کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو راستے سے ہٹانے کے لئے یہ غیرانسانی راستہ اختیار کیا۔ نہ صرف ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہ ظلم روا رکھا بلکہ تمام لاپتہ افراد کے خاندانوں کی طرح ان کی خاندان کو ناقابل بیان اذیت سے دوچار کردیا۔
ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ وطن اورقومی آزادی کے سچے سپوت ہیں۔ دس سال کی طویل ماورائے قانون اسیری یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہیں۔ پاکستان کے ظلم و ستم انہیں توڑنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے ہر بلوچ جانتا ہے کہ انہیں بلوچ وطن کی آزادی عشق ہے اوروہ اپنی عشق کی صداقت کرنے کے لئے دس سالوں سے زندانوں میں پاکستان کی درندگی کا سامنا کررہے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جدوجہد نہ صرف بلوچ بلکہ انسانی شرف کی جدوجہد ہے۔ان کی قربانی پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ لاپتہ افراد کے ہزاروں خاندانوں کی طرح ڈاکٹر دین محمد بلوچ کا خاندان ناقابل بیان درد اور تکلیف سے گزررہے ہیں لیکن ان کی پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی ہے۔ ان کی بیٹیا ں اپنے والد کی بازیابی کے لئے لاپتہ افراد کے تنظیم کا حصہ ہیں اور تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد میں اپنا حصہ نہایت بہادری سے ادا کررہی ہیں۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کا مسئلہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام بین الاقوامی اداروں سے تقاضا کرتا ہے کہ بلوچستان میں انسانی المیے کا واضح اعتراف کیا جائے اور پاکستان کے خلاف عملی کاروائی کا آغاز کیا جائے بصورت دیگر بلوچ انسانی المیہ عالمی ضمیر پر تازیانہ برساتا رہے گا۔