درسگاہ آزادی – شہیک بلوچ

296

درسگاہ آزادی

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہم کیوں غلامی کو تسلیم کریں؟ کیوں ہم نو آبادیاتی نظام کو اپنا مقدر سمجھ لیں؟ کیوں ہم اپنی ہی دھرتی پر بے بسی و دربدری کی زندگی گذاریں؟ ایک انسانی عزت نفس اس حد تک کیسے مجروح ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اپنا آقا سمجھ لے؟ ایک انسان کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ آقا بن بیٹھے؟ کیا یہ کوئی خدائی اختیار ہے؟ یا انسانی عزت نفس کی پستی ہے؟

ان سوالوں میں جس شخصیت کا تصور ابھرتا ہے وہ بابا مری کا روشن کردار ہے۔ ان کے سوالات نہایت بنیادی ہوتے تھے، جو غور و فکر کی دعوت دیتے تھے۔ ایک سیاسی مدبر جو فلسفیانہ انداز میں اپنی رائے کو زبردستی تھونپنے کی بجائے تحقیق و تخلیق کے لیئے نئی راہیں کھولتا تھا۔

وسعت اللہ خان کے بقول جن چیزوں میں ہم کامیابی و ناکامی کی پیمائش کرتے ہیں سردار خیربخش مری ایسے تصورات سے بالاتر ہیں۔

ایک ہلکی سی مسکراہٹ، درویش صفت شخصیت اور نہایت عاجزانہ اور سنجیدہ لہجہ اپنا کر نہایت دھیمے طریقے سے شائستگی سے اپنی بات کرنے والے بابا مری بلوچ نوجوانوں کے وہ آئیڈیل ہیں جنہوں نے بلوچ نوجوان کو غلامی کی تاریکیوں کو سمجھ کر ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا شعور دیا۔

ان سے پہلے جو لیڈران آئے وہ واضح نہیں تھے، کوئی قبائلی بنیادوں پر اٹھا تو کسی نے جدوجہد کے معنی کو محدود کردیا لیکن بابا مری نے “نیشنل ازم” کی بنیاد پر قومی جدوجہد آزادی کی داغ بیل ڈالی اور قومی تحریک کو اداروں کی بنیاد پر استوار کرنے پر زور دیا۔ پہلی مرتبہ بلوچ شخصیتی یا قبائلیت کے اثر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس کا سب سے بڑا کردار بابا مری کا ہے جنہوں نے اپنے ذات کو بت بنانے نہیں دیا اور نہ ہی کسی طرح کے شخصیت پرستی یا قبائلیت کی حمایت کی۔

بابا مری نے بلوچ قوم کو نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارے کے لیئے “ہمہ جہتی” جدوجہد کی ترغیب دی کہ جدوجہد کے تمام موثر پہلوؤں کو بروئے کار لایا جائے اور سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ جو جہاں ہے وہیں اپنے بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرے لیکن ہر ایک کو اپنا بوجھ اٹھانا ہوگا۔

وہ مسلح جدوجہد کو سب سے موثر طریقہ کار خیال کرتے تھے کیونکہ جس ریاست کیساتھ بلوچ کا سامنا ہے وہ کسی بھی پرامن سیاسی طریقے کو بذریعہ طاقت دباتا رہا ہے اور مختلف ادوار میں مختلف جمہوری طریقوں سے کوششوں کے باوجود بھی نتیجہ یہی نکلا کہ بلوچ لیڈران پر غداری کا الزام لگا کر بلوچ نسل کشی کی گئی۔ اس لیئے بابا مری نے نوآبادیاتی نظام میں مصلحت کے تمام راستے بند کرتے ہوئے صرف آزادی کو ہی واحد راستہ چنا اور اس کے لیئے مسلح جدوجہد کو موثر ذریعہ قرار دیا۔ اگر بلوچ کا واسطہ کسی تہذیب یافتہ دشمن سے ہوتا تب شاید بلوچ پرامن سیاسی جدوجہد پر زیادہ زور دیتا لیکن یہ ایک ملٹری ریاست ہے، جو صرف قتل و غارت گری کے علاوہ کسی جمہوری طریقہ کار کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس لیئے طویل مدتی دورانیئے میں ایک مسلسل منظم مزاحمتی تحریک ہی نجات دلاسکتی ہے۔

بابا مری کے بقول بلوچ قوم کو نجات کے لیے قربانیاں دینی پڑینگی لیکن سوچ سمجھ کے ساتھ اور جس حد تک ممکن ہو دشمن کی غفلت کا فائدہ اٹھانا ہوگا۔

بابا مری کا کردار بلوچ سیاسی کارکنوں کے لیئے مشعل راہ ہے، انہوں نے کہیں بھی اپنے نظریئے سے غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا، کسی بھی مقام پر وہ قومی کاز سے غافل نہیں ہوئے، آخری دم تک وہ ثابت قدمی سے انقلابی اصولوں پر عمل پیرا رہے اور جدوجہد کو منظم کرنے کے لیئے کوشاں رہے۔

ان کی برسی کی مناسبت سے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیئے اس دن کو اگر اتحاد و یکجہتی کی نسبت سے عملاً منایا جائے تو یہ بابا کی پیروکاری کا اصل حق ادا کرنا ہوگا، جس قدر وسیع ان کی سوچ تھی ان کے مناسبت سے وابستہ دن کو بھی اتنی ہی وسعت بخش بنا کر منانا ہوگا اور علاقائی و قبائلی سطح سے بالاتر ہوکر نیشنلزم کی بنیادوں پر اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔

قومی سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے یہی گذارش رہیگی کہ وہ بابا مری کے نظریئے کو لے کر سنجیدگی سے لائحہ عمل طے کریں اور اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے کام کریں۔ بلوچ سپریم کونسل کا جو تصور بابا مری نے دیا تھا اس پر عملدرامد کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام قوتیں اپنی طرف سے سنجیدہ نمائندوں کا انتخاب کریں اور مسائل کے حل بابت سنجیدگی سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی واحد ذریعہ ہے کامیابی کا اسی میں بلوچ کی نجات ہے اور یہی ہمارے رہبر کا راستہ ہے۔

بیرون ملک مقیم حیربیار مری اور براہمدغ بگٹی سمیت دیگر ان رہنماؤں کو اب احساس ہوجانا چاہیئے کہ انہوں نے نیشنلزم کی جگہ جس قبائلی مزاج کو پروموٹ کیا وہ نہ صرف ان کی اپنی تنہائی کا سبب بن چکا ہے بلکہ تحریک کو مزید کمزور کررہا ہے۔ بلوچ نوجوان آپ سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں رکھتے بلکہ جب آپ نیشنلزم کا فکر لے کر نمائندگی کے لیے گئے تھے تب یہی نوجوان آپ کے لیے کھڑے تھے، آج اگر آپ isolation کا شکار ہورہے ہیں تو اختلاف صرف رویوں پر ہے اگر آپ دوبارہ قومی سوچ اپناتے ہیں تب یہی نوجوان آپ کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ کم از کم اتنے تکلیف دہ مراحل میں اگر آپ قومی جدوجہد سے غافل ہوکر نقصان دہ رجحانات کا ساتھ دیتے رہینگے تب آنے والی تاریخ میں آپ اپنے لیئے کونسا مقام تلاش کرینگے۔ یہ سوال آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن اگر آج آپ بلوچ جہدکاروں کے رہنما بن کر صرف اور صرف نیشنلزم کی بنیادوں پر تحریک کو از سر نو اداروں کی بنیاد پر منظم کرتے ہیں تب ہمارا قلم آپ کے حق میں لکھنے سے کبھی نہیں کترائے گا، آج اگر بلوچ نوجوان بابا مری کے نظریئے پر عمل پیرا ہوکر اپنے قیمتی جانیں قربان کرسکتے ہیں تو کیا آپ اپنی انا کی حقیر سی قربانی نہیں دے سکتے؟

آج ایک تاریخی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ آپ بلوچ کی تحریک کو منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور بلوچ سپریم کونسل کا جو تصور بابا مری نے دیا تھا اس کو عملی جامعہ پہنائیں۔ بابا مری سے لے کر جنرل اسلم تک تاریخ میں امر ہوچکے ہیں اور ہم اسی صورت میں سرخرو ہونگے جب ہم ان کے نظریہ پر عمل پیرا ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔