خضدار، بیگانہ ہوتا شہر
تحریر: بلوچ خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج میں کچھ اپنے خیالات آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، شاید مجھ جیسا نالائق وطن کی آغوش میں یہ کمزوری دیکھ کر یہ لکھنے پر مجبور ہورہا ہے۔
ویسے دیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے، مظلوم قوموں پر جتنی بھی ظلم و بربریت ہوتی ہے، جتنی قربانیوں سے گذرنا پڑتا ہے، جتنا انکے اوپر نا انصافی ہوتی ہے، انکے اوپر کم ظرف ریاستی دلال، زمین فروش ظلم ڈھاتے ہیں. ان کی خوشیوں کو غم میں بدلتے ہیں، ان کے پیاروں کو روندتے ہیں، ان کے گھر کے ایک ہی سہارے کو گولیوں سے چھلنی کرکے خون میں لت پت کر جاتے ہیں، اتنا ہی قومیں پختہ اور مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور ایک مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں اور ظلم کے خلاف اپنا لہجہ اور بھی سختی سے پیش کرتے ہیں۔
آج حالات کو مد نظر رکھ کر یہ دیکھنے کو ملتا ہے، مخصوص جگہوں پر کچھ نام نہاد من پسند پارٹیز یہ پروپیکنڈا مہم چلا رہے ہیں، نوجوانوں کو گمراہ اور مایوسی میں دھکیل رہے ہیں اور نوجوان ریاستی ہتکھنڈوں میں آکر اسی مایوسی میں مبتلا ہورہے ہیں۔ امن کے گیت گا رہے ہیں کہ اب امن و امان بحال ہورہا ہے، ریاستی چال بازی میں پھنستے جا رہے ہیں، نوکری روڈ اور ترقی کے نام پہ سبز باغ دکھا کر انہیں اپنی پہچان، تاریخ اور حقیقت سے نا آشنا کرکے اپنے غلیظ اعمال پھیلا رہے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف بلوچ قومی مزاحمتی تنظیمیں زورو شور سے دن بہ دن جنگ میں اپنی حکمت عملیوں سے شدت لا رہے ہیں، وہ براس کی شکل میں ایک متحدہ محاذ پر دشمن پر کامیاب حملہ کرکے یا فدائین کی شکل میں پاکستان چین اور دنیا کے جتنی بھی قابض قوتیں ہیں، جو بلوچ قوم کے استحصال و لوٹ مار میں شریک ہیں، انکو بار بار تنبیہہ کرتے آ رہے ہیں کہ جو بھی ان اعمال میں شریک ہیں، وہ اپنے جان و مال کا ذمہ دار خود ہونگے، چاہے اس کے لیئے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے اپنی جان کی پروا کیئے بغیر اپنے قومی فریضے کو بخوشی سر انجام دے رہے ہیں۔
ان عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے کم سے کم میں قوم اور دنیا کو ایک بلوچ ہونے کی حیثیت سے یہ بتانا چاہتا ہوں بقول شہید جنرل استاد اسلم جان کہ جب تک بلوچ اپنے آخری منزل آزاد بلوچستان تک نا پہنچ جائیں تب تک دنیا یہ بھول جائے کہ وہ بلوچستان میں آکر امن کے گیت گائیں گے.
ریاست آج ذہنی مفلوج ہے، آج وہ بلوچ نام پہ بلوچوں کی نسل کشی کر رہی ہے، گناہ گار و بے گناہ وہ بلوچوں کا قتل عم کررہے ہیں، وہ کل کو آپکو قتل کریں اس سے پہلے آپ ہی انکے لیئے سر درد بنو، آج جس جس جگہ پہ ان پر حملہ ہوتا ہے وہ حواس باختہ ہوکر بے گناہ بلوچوں، نوجوان، کم عمر بچوں، عورتوں و پیر بزرگوں کو آٹھا کر لاپتہ کرتا ہے، بعض کو زندہ لاش بنا کر چھوڑ دیتا ہے، بعض کو مسخ کرکے ویرانوں میں پھینکتے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست ماسوائے لاشوں کے آپکو کچھ نہیں دیگا۔
جب تک کہ بلوچ قومی تحریک اپنے اس منزل تک نا پہنچ جائے یا بلوچ کی پوری کی پوری تاریخ ختم نا ہوجائے، آخری بلوچ کے منہ سے بلوچ نام ہی ختم نا ہوجائے، اس وقت تک بلوچ قوم کی خوشحالی و امان کے دن نہیں آئینگے، اس سے بہتر ہے اٹھو! جاگو! اپنے آنے والے نسلوں کو اس دلدل سےنجات دلاو اور اپنی پہچان کو مسخ ہونے سے بچاؤ اور اپنے ہونے والے ظلم کے سامنے کھڑے ہوکر ظالم کا خاتمہ کرو۔
ایک نا ایک دن آپ اس ریاست کے ہاتھوں قتل ہوجاؤگے، چاہے جس شکل میں بھی ہو، معاشی، جانی و مالی طور پر آپ قتل ہونے والے ہو۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ محنت و جدوجہد سے اپنے آنے والے نسلوں کے نام پہ کچھ کرکے انکی زندگی آسودہ کردیں۔
خضدار میں میں نے ان شیروں کو دیکھا تھا، جو ایک حوصلے و مضبوطی کا سبب بنے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ تحریک کا پورا گھڑ خضدار ہی ہے اور جتنے بھی جلسے جلوس، ریلی، نعرے بازی اور دشمن کے خلاف نئی نئی حکمت عملیاں اور مات دیکھا تھا ایسا لگتا دشمن کے لیئے ایک آفت خضدار ہی ہوگا۔
خصدار مہر و محبت کا وہ جگہ تھا، یہاں کوئی کسی دوسرے علاقے کا بھی اپنی چھٹیاں گذارنے آتا، یا پکنکوں پر جاتا تو خضدار کے ان حسین وادیوں، جھلیوں اور خوب صورت پہاڑوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے اور یہاں کے بڑے بڑے اور اونچے پہاڑوں کی تعریف میں مگن ہوتے اور ان پہاڑوں کی طرح لوگوں میں بھی مہر و محبت اتناخوبصورت اور اونچا تھا اور یہاں کا ہر بندہ ایسا مضبوط اور پختہ تھا۔ ہر حالت میں ایک دوسرے کا ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہتے تھے کہ وادئی خضدار اپنی مثال آپ ہی تھا۔
جی ہاں! میں نے شہید امیر المک کے مشن کو یہاں سے چلتے دیکھا، شہید سمیع مینگل کے کردار کو دیکھا، شہید حئی عرف نثار کے سوچ کو یہاں سے بلند ہوتے دیکھا، شہید مجید جان زہری کو کم عمری میں دشمن کے سامنے سینہ تانے دیکھا، شہید نثار مینگل، شہید سعید بارانزئی، شہید خلیل جان مینگل، شہید بیبرگ، شہید ستار، شہید صدام و شہید علی دوست اور بھی سینکڑوں شہیدوں کے جذبے کو آسمان کے بلندیوں کو چھوتے ہوئے دیکھا تھا۔
کئوں کی پکار میں آزان آجوئی کو اپنے آواز میں گنگناتے دیکھا تھا، جو آج بھی دشمن کے سلاخوں کے پیچھےآواز دے رہے ہیں۔ جو آج بھی دشمن کے ٹارچر سیلوں میں غلامی سے لڑرہے ہیں۔ ذاکر مجید، غفار جان، مشتاق رودینی، کبیر مینگل، عطاءاللہ بلوچ اور بھی سینکڑوں لوگ جو اب تک دشمن کے زندانوں میں قید ہیں۔
میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ خضدار میں ایسا کوئی گھر نہیں جو دشمن کے چنگاریوں سے جلا نا ہو، صرف کچھ لالچی و ریاستی دلالوں کے علاوہ۔
کبھی میں یونہی سوچتا ہوں کہ آج ہر نوجوان بے بس و لاچار نظر آتا ہے، ہر شخص مایوسی کے عالم میں مبتلا ہے، وہ مہر و محبت، بے بس ہوکر تھک گئی ہے، ریاست کی من پسند سرداروں و دلالوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ بے بس نظر آتے ہیں۔
دنیا میں ایسی فرعونیت کا قصے بہت ہیں لیکن ایسے مایوس لوگ جو کہ اپنا قبلہ رد کرکے اپنے پیاروں کے قاتلوں سے گلے ملیں اور اپنوں سے بےگانوں جیسا سلوک کریں نہیں دیکھا تھا۔ یہ ایک حیرانی سے کم نہیں ہے، یہاں لوگ جاکر دشمن کے گود میں بیٹھ کر اپنے ایمان کا سودا کر رہے ہیں اور یہی لوگ خوف کے مارے زمینی خداؤں کے سامنے سر بسجود ہی۔
آج خضدار ایسا لگتا ہے، اپنوں کا نہیں غیروں کا شہر ہے، یہاں اب سب نے اپنا ایمان گروی رکھ دیا ہے، یہاں سب کے سب ہار کا اظہار کر چکے ہیں اور یہاں اب ایک غیرت مند انسان نہیں رہا۔
ہمیں اور بھی قربانی دینا ہے، اب تک شہیدوں کا خون تازہ ہے، مجید جان کا کم عمر، جذبہ، قربانی، باقی ہے۔ حئی کا میشن ادھورا ہے۔ خلیل جان کا وہ خواب پورا نہیں ہوا، صدام و علی دوست کا خون سڑک پر تازہ ہے، بیبرگ و ستار پر چلی گولیوں کی آواز ابتک گونج رہی ہے، سمیع جان کی لاش عید کا تحفہ بن کر گرا، ہر عید کا چاند اس غم کی گواہی دے رہا ہے، ابھی بہنوں کی سسکیاں ختم نہیں ہوئیں ہیں، ماؤں کا کلیجہ جل رہا ہے اورابھی تو دشمن کو اور بتانا ہے، ظلم کے آگ کو اور بجھانا ہے، وہ منزل ابھی تک نہیں آیا ہے۔
ہم سب یہ قربانی اور لاشوں کو بھول کر اپنی عید منا رہے ہیں، اپنے خوشیوں میں مگن ہیں، دشمن سے حساب اور بھی چکتا کرنا ہے، اس دھرتی کا قرض چکانا ہے، دشمن سے بدلہ لینا ہے، اور دشمن کا خون بہانا ہے، اپنے دردوں کو مرہم لگانا ہے، خضدار ابھی تو خون کے آنسو رو رہا ہے۔ بعد میں قوم کے دشمنوں کے آنسو تجھ پر بہیں گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔