حمل، عمل کرگئے
تحریر: حیراف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں روز لوگوں سے سُنتا ہوں کہ جی ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کیا کریں؟ ہمارا ایک گهر ہے، ایک خاندان(فیملی) ہے. ماں باپ ہیں. ہماری ماں ہم سے بہت پیار کرتی ہے. اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو ہماری ماں کا کیا ہوگا، وغیره وغیره اور بهی ایسے کئی جذباتی، ایموشنل(Emotional) جملے سُنتا رہتا ہوں۔.
مگر ایک کردار ایسا ہے جس کے بارے میں جاننے کے بعد میں سمهجتا ہوں کہ یہ بہانے بازی اپنے فرائض سے بهاگنے کے بہانے اور خود کو جهوٹی تسلی دینے کے مترداف ہیں. کیونکہ موت تو اٹل ہے جو کہیں بهی کسی بهی حالت میں آسکتی ہے.اور کوئی یہ بات تصدیق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ محاز پر جاؤگے تو مروگے ہی اور گهر پر لازمی ہے کہ جیوگے، یہ الگ بآت ہے کہ ہر کسی کے لیئے جینے اور مرنے کے معنی الگ الگ ہوتے ہیں۔
کوئی سانس لینے کو زندگی اور بے سکت جان کو موت تصور کرتا ہے، تو ایسے لوگ بهی موجود ہیں اس روِ زمین پر جو اپنے مقاصد میں کامیابی ہی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں. اور میرے خیال میں مقاصد بهی دو طرح کے ہوتے ہیں فردی مقاصد جسے اگر میں خود غرضانہ مقاصد کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا، اور اجتماعی مقاصد جسے اگر میں اجتماعی فلاحی مقاصد کا نام دوں تو بجا ہوگا. اسی طرح کوئی فردی مقاصد حاصل کرنے کے لیئے سماج میں رائج نظام سے روح گردانی اختیار کرکے سرپهرا باغی بن جاتا ہے، اور کوئی اجتماعی مقاصد حاصل کرنے کے لیئے جان دیکر اور جان لیکر بهی انقلابی بن جاتا ہے. دونوں ہی مقاصد میں جان لینے اور جان دینے کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں.
کوئی اس لیئے نہیں لڑتا کہ وه کسی کی جان لے یا اپنی جان دے. بلکہ وه اس لیئے لڑتے ہیں کیونکہ اُنہیں اُن کا مقصد جان سے بهی پیاری ہوتی ہے یا یوں کہیئے کہ وه اپنے مقاصد میں کامیابی ہی کو اپنی زندگی مانتے ہیں۔.
ان کے نزدیک سانس نہ لینے سے کوئی مر نہیں جاتا اور بلکہ انسان اُس وقت مر جاتا ہے جب اُسکا کردار مر جائے اور اچهے کردار کبهی نہیں مرتے، شاید اسی لیئے ہی اسلام بلکہ دُنیا میں جتنے بهی مذہب ہیں سب شہیدوں کو مُرده کہنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کیونکہ وه تو ہمیشہ اپنے مقاصد میں زندہ تابنده اور امر ہوجاتے ہیں۔
آج میں ایسے ہی ایک امر، زنده اور تابنده کردار کے بارے میں لکهنے کی کوشش کررہا ہوں. جو ایک سچے انقلابی، ایک عظیم سوچ کے مالک، ایک لاغر بدن سا لڑکا جو ایک اٹوٹ حوصلے اور جذبے کا پیکر، آپنے ساتهیوں کیلئے ایک اچها دوست، تنظیم کے ایک ذمہ دار رکن، دهرتی ماں کے بیٹے اور بلوچ قوم کے ایک سچے سپاهی تهے.
حمل فتح، جی ہاں حمل! میں آپکی بات کررہا ہوں.
یہ سچ ہے حمل کہ میں کبهی آپ سے ملا نہیں اور اسی بات کا مجهے دُکھ بهی ہے. کہ کاش میں آپ سے ملا ہوتا. آپکے ساتھ گذرے کچھ لمحوں کی یادیں میرے حصے میں بهی آتے۔
مگر کیا ہوا حمل کہ میں آپ سے نہ مل پایا. آپکے مقصد سے تو ملا ہوں، آپکے اُس عظیم مقصد کو جان پایا ہوں. میرے لیئے یہ بهی کافی ہے حمل کہ ہم ایک ہی منزل کے راہی ہیں، ایک ہی کشتی کے مُسافر ہیں.
میں بهلا آپ سے کیسے نا آشنا ہوسکتا ہوں.حمل، سُنا ہے جب آپ نے پہلی دفعہ وطن کے سنگلاخ پہاڑوں کا رُخ کیا اور سیاہیجی کے بلند و بالا چٹانوں کو آپنا مسکن بنایا تو ماں آپ کیلئے کافی فکر مند تهی. اور اس پریشانی نے اُسے گهر میں بیٹھنے نہیں دیا اور آپ سے ملنے یا آپکی خیریت معلوم کرنے کیلئے گُلزمین کے نرمزار بیٹے شہید واجہ معیار کے گهر پہنچی اور وہاں تین دن تک آپ کی راه دیکھتی رہی اور بالا آخر آپ سے فون پر بات کرنے کے بعد تھوڑی سی تسلی ہوئی اور گهر لوٹ گئی. حمل اُس وقت ماں کو شاید یقین ہوچکی تهی کہ اس کا حمل اب اکیلا اُسکا نہ رہا بلکہ وه اب گُلزمین کا بن چکا ہے.
وہی حمل آج کیا کرگئے؟ حمل آج عمل کرگئے، اُن سب گُمانوں پر ان سب خیالوں پر اور آپنے اُن سب قولوں پر. حمل دهرتی ماں کے بیٹے ہونے کا ثبوت اپنی جان سے گذر کے دے گئے.
حمل، آج ماں روتی تو ہوگی مگر آپکو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ امی جان آپکے مقصد میں آپکو زنده اور تابنده دیکهتی ہے۔ کل جو ہاتھ حمل کیلئے دعا کرنے کو اُٹهتے تهے، آج وہی ہاتھ حمل کے عظیم مقصد آجوئی کیلئے اُٹهتے ہیں۔
حمل آپ کامیاب ہوگئے، آپ نے پوری دُنیا کو یہ باور کرادیا کہ آپ ایک سچے انقلابی تهے. آپ نے آپنی وه زندگی پالی جو آپکی حقیقی زندگی ہے۔ حمل آپ امر ہوگئے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔