جی ہاں میں نے عید منائی – لالا خان بلوچ

661

جی ہاں میں نے عید منائی

لالا خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بے گواہ دوستوں کے یادوں کے ساتھ، ماؤں کے ارمانوں کے ساتھ، بوڑھے باپ کے آنکھوں کے آنسوؤں کے ساتھ، چیختی چلاتی بہنوں کے ساتھ، لٹے اجڑے گهروں کے ساتھ …….. جی ہاں! میں نے بهی عید منائی۔ مقبوضہ بلوچستان میں، اپنے ماتے وطن میں عید منائی۔ اپنے سرزمین، جس کے ننگ و ناموس پہ ہزاروں نے اپنے جانوں کی قربانی دے چکے ہیں. جی ہاں! میں نے عید منائی 5 جون کو، جون وہی جون جوکہ آج سے دس سال پہلے بهی آئی تهی، جب ہم سے ہمارا نظریاتی استاد کو ہم سے چھین کر کال کوٹھڑیوں میں بند کیاگیا۔ جی ہاں! ہمارا نظریاتی استاد ذاکر جان کو اغواء کیا گیا، ذاکر جان تو ایک طالب علم تها، لیکن بولتا تها، دیکهتا تها، سنتا تها، وہ اپنے وطن کے دفاع میں بولتا تها.

ذاکر مجید بلوچ کو دس سال پہلے ریاستی ایجنسیوں نے لاپتہ کیا جوکہ تاحال لاپتہ ہے، ذاکر مجید کہتا تها غلام قوم کا کا آقا یہ کبهی نہیں چاہتا کہ وہ تعلیم حاصل کرے. کیونکہ اگر ایک غلام قوم نے تعلیم حاصل کی تو پهر وہ غلامی کے طوق لعنت کو اپنے گلے سے اتارنے کی مزاحمت کرے گا، وہ باغی بن جائے گا، حاکم سے لڑے گا، مرنے اور مارنے پر اتر آئے گا، اپنی آزادی جیسی عظیم نعمت کو حاصل کرے گا، بس یہ تهی ذاکر کی سوچ. یہ تها ذاکر کا جرم۔

ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید نے طویل لانگ مارچ کی، انسانی حقوق کے تمام اداروں کے دروازوں کو کهٹکهٹایا، کچھ باضمیروں نے اپنی آواز کو اس کی حق میں بلند کیا. اپنے قلم سے ظلم کی خلاف لکهے، بولے، لیکن ہمارا معاشرہ تو گنگوں، بہروں، اندهوں سے بهری پڑی ہے. اکثریت کا یہی حال ہے. بھلے ان کی آنکھیں دیکھ سکتے ہیں لیکن پهر بهی اندهے ہیں. زبان بول سکتا ہے، پهر بهی گنگے ہیں. کان سن سکتے ہیں، پهر بهی بہرے ہیں. ایسے معاشرے میں بہن فرزانہ جگائے آخر کس کو….. کس سے گلہ کرے… کس سے شکوہ کرے…. اپنوں کو بهی جگائی، غیروں کو بهی، پهر ا گرکسی کا ضمیر مر گیا ہے تو وہ کہاں جاگ سکتی ہے. بس یہی عالم ہے ہمارے سماج کا۔

میں وہ درد بهرے لمحے کبهی بهی اپنے الفاظ میں، بلکہ دنیا کا کوئی لکهاری بیان نہیں کرسکتا، جو لمحے ذاکر کی ماں نے گذاریں ہے. ان دس سال میں کتنے عید گذرے، پهر تو یہ عید ایک قہر تهی، ذاکر کی ماں کیلئے. وہ تو ہر لمحہ اپنے لخت جگر کو یاد کرکے آنسو بہاتی ہے، روتی ہے، پهر یوں دن گذرتا ہے، ماں اپنے آپ سے یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتی ہیں کہ ذاکر جان واپس آئے گا. اپنے مقصد کو پالے گا، اس کا سفر منزل مقصود تک پہنچ جائے گا. وطن کا حق ادا کرے گا. اپنے وطن کو آزاد کرے گا. پهر میں بهی ہمیشہ کا سکوں پاؤنگا، پهر کسی ماں کو ایسے لمحے کبهی دیکهنا نہیں پڑے گا. ذاکر جان واپس آئے گا، وطن کا دفاع کرے گا، ماں کو آزاد کرے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔