متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ غالب امکان یہی ہے کہ سمندر میں تیل بردار جہازوں پر ہونے والے حملوں میں ایک ’ریاستی عنصر‘ ملوث ہے۔
رپورٹ میں 12 مئی کو ہونے والے حملوں کو مربوط، سوچا سمجھا اور منظم آپریشن قرار دیا گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے خیال میں ان حملوں میں کون ملوث ہے۔ ان حملوں میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ناروے کے تیل بردار ٹینکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
امریکہ نے ان حملوں کا الزام ایران ہر عائد کیا ہے تاہم تہران نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ حملے 12 مئی کو متحدہ عرب امارات کی سمندری حدود میں فجیرہ کے مشرق میں آبنائے ہرمز سے کچھ دور ہوئے تھے۔
متحدہ عرب امارات کے مطابق چار تیل بردار بحری جہازوں پر ’تخریب کارانہ حملے‘ ہوئے تھے۔
ان حملوں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی لیکن سعودی عرب نے کہا تھا کہ اس کے دو جہازوں کو ’کافی نقصان‘ پہنچا ہے۔
تیسرا تیل بردار جہاز ناروے جبکہ چھوتھے کا تعلق متحدہ عرب امارات سے تھا۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ اب یہ ’واضح‘ ہو چکا کہ ان حملوں کے پیچھے ایران ہے۔ بولٹن عرصہ دراز سے تہران میں حکومت کی تبدیلی کی حمایت کرتے آئے ہیں۔
امریکہ ان حملوں کو اپنے اور اپنے اتحادیوں کے خلاف جاری بڑی مہم کا ایک حصہ گردان رہا ہے۔
ایران کی وزارتِ خارجہ نے امریکی الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔
تازہ ترین تفصیلات کیا ہیں؟
ان حملوں کے خلاف متحدہ عرب امارات کی سربراہی میں ہونے والی نئی تفشیش میں پتا چلا ہے کہ ان حملوں کو ’انتہائی منظم‘ انداز میں کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے حملوں کے لیے تیز چلنے والے جہازوں کی آمدورفت کا علم ہونا ضروری تھا اور اسی کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی بحری حدود میں داخلہ ممکن تھا۔
رپورٹ کے مطابق ان حملوں کے لیے غوطہ خور استعمال کیے گئے جنھوں نے جہازوں کے ساتھ چمٹ جانے والی بارودی سرنگیں لگائیں۔ اس کی وجہ سے جہازوں کو بڑا دھماکہ کیے بغیر نقصان پہنچا۔
ایرانامریکہ تنازعےکے پسِ پردہ محرکات؟
گذشتہ ماہ مئی کے آغاز میں ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھنا شروع ہوئی جب واشنگٹن نے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک پر لگی پابندیوں میں نرمی کو یکسر ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اس فیصلے کا مقصد ایران کی تیل کی برآمدات کو بالکل ختم کرنا اور ایرانی حکومت کو اس کے سب سے بڑے ذریعہ آمدن سے محروم کرنا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والی جوہری ہتھیاروں کے معاہدے کو ختم کرتے ہوئے ایران پر پابندیوں کا دوبارہ اطلاق کر دیا تھا۔ ایران نے یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ممبر ممالک اور جرمنی کے ساتھ دستخط کیا تھا۔
ایران نے اس معاہدے کے تحت دی گئی کئی یقین دہانیوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔