بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان کا مسئلہ سمجھنا مشکل ہے خضدار میں اربوں روپے سے سڑک بنانے کی بجائے یہ پیسہ سکولوں‘ کالجز کے قیام پر خرچ کیا جائے، بم دھماکے کرنے اورلاشیں گرانے والوں کیلئے بلوچستان حکومت 20 کروڑ روپے کی اسکیمات دے رہی ہے۔ منتخب اراکین اسمبلی کو پروڈکیشن آرڈر کا محتاج بنا دیا گیا ہے، 19 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے بلوچ کے پسماندگی کے ذمہ دار قبائلی سردار نہیں بلکہ سسٹم ہے،نواب بگٹی کے پاس کون سے میزائل تھے کہ ان کو شہید کیا گیا، معیشت‘ جمہوریت نے نہیں قوموں کے جائز حقوق کے انکار سے ملک کو نقصان پہنچا،منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے چوردروازے بند کھڑکیاں کھولی جا رہی ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ سیمنٹ اور سریا پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے کوئٹہ میں وحدت کالونی اور بلیلی چیک پوسٹ کے پاس مکانات تعمیر کئے جا رہے ہیں بلیلی کے پاس 2002ء میں سیلاب نے تباہی مچا دی تھی وحدت کالونی میں سرکاری ملازمین کے کوارٹر پہلے سے موجود ہیں انہیں مسمار کیا جائے گا وہاں کے مکین جو سرکاری ملازمین ہیں ان کیلئے خیموں کا بندوبست کیا جائے گا کیا،وہاں کے نمائندگان کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ہے زبیدہ جلال اور اسلم بھوتانی بھی یہاں بیٹھے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ ترقیاتی منصوبوں کون شامل کر رہا ہے۔ مجھے کہا جا رہا ہے کہ میرے حلقے میں 4ارب کا روڈ بنایا جا رہا ہے ہم نے عربوں کو تو عرب امارات میں دیکھا تھا یہاں کے تو عربوں کو آج دیکھ رہے ہیں مگر میں یہ کہتا ہوں یہ روڈ نہ منسٹر صاحب کا ہے نہ میرا ہے یہ کسی اور کا ہے سڑکیں بنانے کی بجائے لوگوں کو پینے کا پانی مہیا کیا جائے تعلیمی ادارے کیوں نہیں بناتے جس کی ہمیں ضرورت ہے آج تک ہمیں بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ کا الزام دیا جاتا رہا ہے سردار نظام ترقی میں حائل ہے ہم آپ کو ایک ایک گاؤں میں لے جانا چاہتے ہیں کہ تعلیمی ادارے بنائے بلوچستان کے ہر گاؤں، ہر یونین کونسل میں پرائمری اور ہائی سکول، ہر ڈسٹرکٹ میں ایک یونیورسٹی بنائی جائے سڑکوں سے کچھ نہیں ملنے گایہ صرف دھوکہ ہے، کہا جاتا ہے کہ منی لانڈرنگ کو روکا جائے چوری کے دروازے بند کھڑکیاں کھولی جا رہی ہیں حق اور حلال کی کمائی کمانے پر والوں 30فیصد ٹیکس لوٹ مار کے مال پر 4فیصد ٹیکس لگایا جا رہا ہے، پی آئی اے کی پرواز اتنی اونچی نہیں اڑتی جتنا ڈالر اونچا اڑ رہا ہے وہ ممالک جن پر ہم ہنستے ہیں اس کا ٹکا کئی درجے بہتر ہے افغانستان کی کرنسی ہم سے بہتر ہے بنگلہ دیش کی معیشت ہم سے بہتر ہے جب ہم بلیڈی سویلین ہوں گے تو اختیارات ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوں گے کسی اور کے ہاتھ میں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت کا فیصلہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کرے خارجہ پالیسی خیرات دہندگان بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ چالیس سالہ افغان جنگ اور بنگلہ دیش میں کشت وخون، اگر یہ حالات ہمارے ملک میں ہوئے تو کرکٹ اپنی جگہ گلی ڈنڈہ کھیلنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ قوم اور زبان جو ہم اب تک سمجھ نہیں پائے بلوچستان میں بسنے والے بلوچ، پٹھان، پنجابی، اردو بولنے والے بستے ہیں قوم و تقدیر کے فیصلے کرنے والے بلوچ اور بلوچی میں فرق نہیں کر سکے بلوچی ہماری زبان اور بلوچ قوم ہیں بلوچ جو ایک تاریخی ثقافت، عزت رکھتی ہے اور لوگوں کو عزت دیتی ہے۔ مشرف جب صدر پاکستان تھے وہ بھی کہتے تھے بلوچی،ہم عام لوگوں سے کیا گلہ کریں ایک مزدور سے کیا گلہ کریں۔این ایف سی ایوارڈ کے تحت200.94بلین بلوچستان کو دیئے جا رہے ہیں یہ بھی ہمارے لئے بڑی غنیمت ہے جس میں بھی کٹوتی کی جا رہی ہے، 18ویں کو بھی رول بیک کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر ظلم و زیادتیاں کی جا رہی ہیں ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے بنگال بنگلہ دیش بن گیا مگر ہم نے سبق نہیں سیکھا پسماندہ علاقے مزید پسماندہ ہوتے گئے احساس محرومی ناراضگی میں تبدیل ہوتی گئی جو گلے پڑ گئی اسے پیار محبت سے ختم کرنے کے بجائے بندوق، توپ، ٹینکوں سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی جو بغاوت میں تبدیل ہو گئی اورو ہ ابھی تک جاری ہے، نواب اکبر خان بگٹی کی عمر 80سال سے زائد تھی اس سے کس کو خطرہ تک تھا کون سا نواب بگٹی کے پاس میزائل تھاکون سے ان کے پاس ایٹم بم تھے پہاڑوں میں جب نواب صاحب روپوش ہوئے تو ان کو وہاں پر بھی ان کو بخشا نہیں گیا بلکہ انہیں شہید کیا گیا، بلوچستان کا کوئی ایسا گاؤں نہیں جہاں نوجوانوں کی لاشیں نہیں گرائی گئیں ایک والد کے تین نوجوان بیٹھے شہید کئے گئے والد نے خود ان کو مشکے کے علاقے میں دفن کیا اور ہجرت کر کے حب چلا گیا تین دن پر اسی 80سالہ شخص کو اٹھا لیا گیا کس سلطنت میں ہم رہ رہے ہیں یہاں کون سا قانون ہے مزید 72سالہ زیادتیوں کا ذکر نہیں کروں گا جو بڑی تلخ تاریخ ہے ہمیں پتہ ہے کہ گہرے زخم کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں، 70سالوں سے ہم نے صرف زخم کھائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اجتماعی قبروں کا تو آپ لوگوں نے سنا ہو گا توتک سے اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں ان میں جو لوگ ملوث تھے وہ توتک،جیکب آباد واقعات، کراچی واقعات‘،شہباز قلندر، شاہ نورانی، پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں دھماکے،8اگست کے سول ہسپتال دھماکوں میں ملوث رہے ہیں جن کے نام ایف آئی آر درج ہیں، جنہوں نے لیویز کے جوانوں کو قتل کیا وہ ہر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمارے دو دوست ہیں جنہوں نے لیویز اہلکاروں کا قتل تو نہیں کیا،مزارات پر دھماکے تو نہیں کئے ان کے اور آصف زرداری کو لانے کیلئے پروڈکیشن آرڈر کی ضرورت پڑ رہی ہے، سعد رفیق جو ملک کے وفاقی وزیر رہے ہیں ان کے لانے کیلئے بھی پروڈکیشن آرڈر کی ضرورت پڑ رہی ہے۔جے آئی ٹی رپورٹ میں انہی لوگوں کے نام شامل ہیں جو انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اتحاد بنائے جاتے ہیں لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ آپ اس پارٹی میں شامل ہوں بلوچستان کی پی ایس ڈی پی میں ہمارے وزیراعلیٰ اُس شخض کیلئے 20کروڑ کے پروجیکٹ بطور ایوارڈ مختص کئے ہیں یہ انعام ان کو شاہ نورانی دھماکے،لیویز اہلکاروں کے قتل عام، سیہون شریف کے دھماکے کے الزام میں دیا جا رہا ہے، کچھ تو گڑ بڑ ہے کون یہ گڑ بڑ کر رہا ہے کون اس ملک کو اس نہج پر پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھی کینال جو 2002ء میں شروع ہوا اس سے 3لاکھ 13ہزار ایکڑ زیر کاشت آنی تھی اب تک اس سے 10ہزار ایکڑ زیر کاشت لائی جا رہی ہے ہم نے مطالبہ کیا کہ ڈیمز ہمیں دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ آج تک کتنے مسنگ پرسن بازیاب ہوئے جب سے ہم نے معاہدہ کیا آج دن تک 552لوگ مزید غائب کر دیئے گئے ہیں جب ہم نے فہرست پیش کی 5128کی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا نہ کسی میری تعریف کی کوئی رویا مگر کسی نے انکار نہیں کیا اب کہا جا رہا ہے کہ یہ فہرست غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ڈیم بنانے ایوب خان اور مشرف کے دور میں 2ڈیمز بنائے گئے حب میں جس سے کراچی اور حب کو پانی دینا تھا مگر ہوا یہ کہ حب کو پانی سے محروم رکھا گیا ہے حب سے فیکٹریوں کو پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ ڈیمز کی ضرورت دوسرے صوبوں میں زراعت کیلئے ہمارے صوبے میں پینے کیلئے بھی ڈیمز ضروری ہیں، ہمارا سارا دارومدار صرف ڈیمز پر ہے بلوچستان میں کوئی اور ڈیمز نہیں بنایا گیا۔بجلی اور گیس کا کیا کہوں پنجگور اور مکران میں بجلی کافی دنوں سے بند ہے ایران سے آنے والی بجلی بند ہے 25دنوں سے پنجگور میں بجلی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک کو جو نقصان ہوا وہ معیشت،جمہوریت کی وجہ سے نہیں قوموں کے جائز حقوق کے انکار سے ملک کو نقصان پہنچا،بلوچستان کے مسئلے کو یہاں بیٹھ پر سمجھنا مشکل ہے پارلیمانی اراکین کی کمیٹی بنائی جائے تو بلوچستان کے مختلف علاقوں کے دورے کرے عوام کا حال سنے دیکھیں خامی کہاں پر ہے صرف ٹی وی چینلز پر ہماری باتیں سن کر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ایوان کی کمیٹی بنائی جائے اس میں تمام پارلیمانی پارٹیز کے سربراہ اس میں شامل ہوں۔