بلوچ موت کے آغوش میں
تحریر: اسماعیل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں روزانہ سینکڑوں کے حساب سے بلوچ عوام کبھی پاکستانی فوج کے مظالم سے تو کہیں انگنت بیماریوں کے باعث یا روڑ حادثات، منشیات ، آپسی جنگ، کشت و خون اور بھوک کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
سب سے زیادہ اموات کی شرح پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہوتی ہے، جن کے بارے میں پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کس طرح روزانہ پاکستانی فوج بلوچ قوم کی نسل کشی کررہا ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، اس حوالے سے بلوچ قوم پرست پارٹیاں اپنے بیانات اور ماہانہ رپورٹ، جن میں بلوچستان کے اندر قتل و غارت کے تمام تفصیلات بیان کیئے جاتے ہیں، جاری کرتے ہیں جیسا کہ تازہ ترین رپورٹ بلوچ نیشنل مومنٹ کی جانب سے مئی 2019 کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے جاری ہوا تھا جو مندرجہ ذیل ہے:
” بلوچ نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کے پامالیوں پرمبنی ماہ مئی کی تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ مئی کے مہینے میں پاکستانی فورسز کی ظلم و جبر کا تسلسل نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ اس مہینے میں پاکستانی فوج نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پچیس سے زائد آپریشن کیئے جن میں 49افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا، اسی ماہ39 نعشیں ملیں، جس میں 18 بلوچ فرزند شہید ہوئے جبکہ 11 افراد کے قتل کے محرکات سامنے نہیں آ سکے، دس لاشوں کی شناخت نہ ہو سکی جس میں 9 لاشیں وہ بھی تھیں جنہیں فورسز نے مستونگ میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا، حقیقت میں یہ لوگ پہلے سے فورسز کے حراست میں تھے جنہیں ایک جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔ اسی ماہ 7 افراد بازیاب ہوئے جنہیں گذشتہ ماہ فورسزنے حراست میں لے کر لاپتہ کیاتھا۔ فوجی آپریشنوں میں فورسز نے پچاس سے زائد گھروں میں لوٹ مار کی، نہتے لوگوں، خواتین اور بچوں پر تشدد بھی حسب سابق جاری رہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مہینے لاپتہ ہونے والوں معصوم بچوں سے لے کر خواتین اور بیٹیاں شامل ہیں گوادر سے ایک بلوچ ماں بی بی عائشہ زوجہ اللہ بخش اور ان کی دو بیٹیاں بی بی مہتاپ اور 16سالہ کی نائلہ بنت اللہ بخش کو حراست میں لے کرلاپتہ کرکے فوجی کیمپ منتقل کیا گیا، بی بی عائشہ کے شوہر پہلے سے فوج کے حراست میں ہیں یہ خاندان کیچ کے علاقے شاپک کے باشندے ہیں اور یہاں فوجی آپریشن اور بربریت سے تنگ آکر جبری نقل مکانی کرکے گوادر منتقل ہوئے تھے۔ دو دن اس خواتین اور بچوں کو شدید ذہنی و جسمانی تشدد کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ ان کے شوہر ابھی تک لاپتہ ہیں۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان نے جنگل کا قانون رائج کیا ہے، پاکستانی فوج اورخفیہ ایجنسیاں بدمست ہاتھی کی طرح دندناتے پھررہے ہیں، قانون، انسانی اور قومی اقدار ان کے نزدیک کوئی اہمیت و معنی نہیں رکھتے ہیں گذشتہ انیس سال سے مظالم و بربریت پیہم جاری ہے کسی بھی مرحلے پر ان میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
انہوں نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ مسلسل یہ واضح کرتا چلا آیا ہے کہ بلوچستان میں ایک انسانی المیہ اور انسانی بحران جنم لے چکا ہے، یہاں انسانیت سسک رہا ہے اور انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں اپنے عروج پر ہیں لیکن اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کے عالمی اداروں کے نوٹس نہ لینے کی وجہ سے یہاں انسانی بحران مزید سنگین ہوتا جارہا ہے۔ “
اور باقی اموات پاکستانی ریاست کی بلوچ عوام پر ڈھائے گئے مظالم کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔ یہاں پر میں پاکستانی ریاست کو دوسرے اموات کا زمہ دار کیوں ٹہرا رہا ہوں؟ اس کے لیے میں درج ذیل کچھ مختصر وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
صحت :
صحت انسان کی بقا کیلئے اتنی اہم جتنا کہ ہوا اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی جہاں دنیا بھر میں اس حوالے سے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو صحت مند رکھنے کے لیے بہترین دوا، نظام صحت اور جدید طرز کی مشینری مہیا کرنے کے لیے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں تمام سہولیات اپنے قوم کو دے رہے ہیں مگر بلوچستان میں اس حوالے سے کوئی سہولت دستیاب نہیں،
ایٹمی تابکاری کی وجہ سے زہر آلود فضا کے باعث ہزاروں بیماریاں جنم لے چکی ہیں۔
دور دراز علاقے اپنی جگہ بلوچستان کے سب سے بڑے جو تین چار بڑے شہر ہیں وہاں بھی صحت کے حوالے کوئی سہولت موجود نہیں ۔
29 اپریل 2014 شائع شدہ بی بی سی رپورٹ کے مطابق بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بچوں کی صحت کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں بچوں کی شرحِ اموات سب سے زیادہ ہے۔
یونیسیف کی جانب سے اس تشویش کا اظہار حفاظتی ٹیکہ جات کے ہفتے کی مناسبت سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کیا گیا ہے۔ یہ ہفتہ ہر سال اپریل کے آخری ہفتے میں منایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں بچوں کی صحت کی صورت حال دیگر صوبوں کی نسبت انتہائی خراب ہے اور یہاں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 111 اپنی پانچویں سالگرہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مرجاتے ہیں۔
ان بچوں میں سے 97 بچے ایک سال کے اندر اندر ہی مر جاتے ہیں اور 60 بچے ایسی بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں جن سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکے اور ویکسین دی جاتی ہے۔
یونیسیف کے بیان کے مطابق بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں صرف 16 فیصد بچے حفاظتی ٹیکہ جات اور ویکسینیشن کے ذریعے ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، خناق، تشنج، ہیپاٹائٹس، پولیو اور گردن توڑ بخار جیسی آٹھ مہلک بیماریوں سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یہاں 84 فیصد بچوں میں بیشتر کی ویکسینیشن نہیں ہوئی یا ان کے والدین کورس مکمل نہیں کرواتے جس کی وجہ سے صوبے میں بچوں کی شرح اموات انتہائی تشویش ناک ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یوں تو بلوچستان میں گذشتہ 18 ماہ سے پولیو سے پاک ہے لیکن اب بھی گندے پانی کے نالوں سے لیے گئے نمونوں سے بلوچستان میں پولیو وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جس کے باعث بلوچستان کے 22 لاکھ بچوں پر اب بھی معذوری کے سائے منڈلا رہے ہیں۔
بلوچستان میں 84 فیصد بچوں میں بیشتر کی ویکسینیشن نہیں ہوئی ہوتی۔
یونیسف کے مطابق بلوچستان میں 39 فیصد یونین کونسلوں میں کوئی ویکسینیشن سینٹر نہیں ہے، جب کہ غیر فعال ای پی آئی سینٹرز کو فعال کرنے کے لیے 600 اضافی ویکسینیٹرز کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق کسی بھی ملک کی آبادی کی فلاح و بہبود کا اندازہ اس میں موجود نظام صحت سے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس ملک میں بچوں کی صحت کی صورت حال نظام صحت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔
غربت :
جس کے بابت نہ صرف ہمیں معلوم ہے کہ بلوچ کس بھوک افلاس سے مر رہے ہیں کس طرح غربت کی وجہ سے بلوچ عذاب میں مبتلا ہیں بلکہ اس حوالے سے عالمی دنیا بھی ادراک رکھتی ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جس میں پاکستان کے مختلف شہروں میں غربت کی شرح کے حوالے سے تفصیل پیش کی گئی ہے۔ جو پورے پاکستان کے بابت رپورٹ ہے اس میں بلوچستان سب سے زیادہ غریب ترین صوبہ قرار دیا گیا ہے، جہاں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے، بلوچستان کے دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 84.6 فیصد ہے، جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 37.7 فیصد ہے۔
غربت کی وجہ سے دن میں کتنے بچے موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں ؟
آغا خان یونیورسٹی سروے کی تازہ ترین مصدقہ رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کے 20 اضلاع کے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے صرف 10 اضلاع کا تعلق بلوچستان سے ہے سوچنے والی بات ہیکہ پورے پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے بلوچستان میں ستر لاکھ بلوچ ہیں اور دس اضلاع کے لوگ غزا سے محروم ہیں، اس کے علاوہ منشیات کا عام ہونا جس کا علم نہ صرف اہل بلوچستان کو اچھی طرح سے ہے بلکہ اس حوالے سے بھی کئی بار عالمی ادارے وقتاٌ فوقتاً اپنے بیان جاری کرکے تشویش کا اظہار کرچکے ہیں ۔
روڑ حادثات جو ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح ہر روز ہولناک حادثات ہوتے ہیں جو روڑ پاکستانی فوجی ریاست نے بلوچستان میں بنائے ہیں وہ صرف پنجاب اور فوجی عسکری مفادات وسہولیات کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں تاکہ بروقت بلوچ عوام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے میں آسانی ہو، یاد رہے یہ روڑ ایک سنگل روڑ جہاں جو صرف پنجاب کے مفادات کے حصول بنایا گیا ہے ” بلوچستان سے وسائل نکالنا اور فوجی عسکری رسد کے لیے یہ سنگل روڑ بلوچ عوام کے لیے نہیں مگر بلوچ عوام بھی مجبوراً اس روڑ کو استعمال کرتے ہیں ۔
اس سنگل روڑ میں دن میں ہزاروں مال بردار گاڑیاں ، مسافر بسیں اور چھوٹی گاڑیاں شامل ہیں گزرتے ہیں روڑ اور شاہراہوں کی خستہ حالی کی وجہ سے روزانہ کے حساب سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں بریک فیل ہونے کی وجہ سے کئی المناک حادثے ہوتے رہتے ہیں جن میں سینکڑوں قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں ۔
آپسی جنگ و جدل :
جن کے کئی اسباب ہوتے ہیں مگر قابل غور طلب بات یہ ہے کہ ان آپسی لڑائیوں کو ہوا دینا ایک دوسرے کو لڑائی کرنے پر اکسانا ہمیشہ پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کا شیوہ رہا ہے کیوں کہ وہ ان جگڑوں سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں جس طرح سے پاکستان کے آقا برطانیہ نے لڑاؤ اور حکمرانی کرو کے پالیسی پر نصف دنیا پر قبضہ کرکے حکمرانی کی تھی بلکل اسی پالیسی کے تحت پاکستان بھی عمل پیرا ہے .
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔