بلوچ قومی تحریک اور بلوچ ڈائسپورا کی ذمہ داریاں – شہیک بلوچ

298

بلوچ قومی تحریک اور بلوچ ڈائسپورا کی ذمہ داریاں

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں ناکامی کا سوال بیرون ملک مقیم بلوچ لیڈروں و سیاسی کارکنوں کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ وہ ایک فکر لے کر باہر گئے۔ یہاں کے جبر سے دور جہاں وہ اپنے قومی مقصد کے لیئے ایک آزاد فضاء میں کام کرسکیں لیکن آج بیرونی ممالک میں مقیم بلوچ کوئی بھی موثر کام کرنے سے قاصر رہے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی زمہ داری ان لیڈروں پر عائد ہوتی ہے جو سفارت کاری کی ذمہ داریاں لے کرگئے اور بلوچ قومی مسئلے بابت عالمی سطح پر آگہی و حمایت کی کوششوں کا جھوٹا یقین دلایا۔ وہاں جاکر انہوں نے اپنے محدود سرکلز بنا لیئے اور ان محدود سرکلز کے زیر اثر کوئی موثر نتیجہ کیونکر ممکن ہوتا۔ ایسے خالی خولی دانشور ان کے پاس جا بیٹھے جو باقاعدہ درجہ بندی کرنے لگے کہ فرد واحد کو اول نمبر کا رہنما ماننا چاہیئے، فلاں عمر میں کم ہے تو اس کے بعد میں۔۔ اس ذہنیت کیساتھ ایک پوری قومی تحریک کی رہنمائی کیسے کی جاسکتی ہے؟

گلہ ان مفاد پرست عناصر سے نہیں کیونکہ ان کی وابستگی تحریک سےمحض اپنے روزمرہ کے ضروریات پوری کرنے تک ہیں اور ان کے لیے یہ کام سہل ترین ہے کہ جس فرد سے وہ وابستہ ہے، اس کو کرشماتی بنانے کے لیئے درباری طرز اختیار کرلیں لیکن لیڈرشپ خود جب یہی چاہتا ہو تب سب سے بڑا قصوروار وہ خود ہی ٹہرتا ہے کیونکہ اسے سب سے بڑی ذمہ داری سونپی گئی لیکن اس نے سب سے بڑھ کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور باہر بیٹھے بلوچوں کو کسی منظم قوت کی صورت میں ڈھالنے کی بجائے ان میں گروہ بندی کا باعث بن کر اشتراک عمل کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ ان رویوں کیساتھ قومی تشکیل ممکن نہیں نہ ہی ان رویوں کو مہذب معاشروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ یہی رویے بلوچ تحریک کی جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ رالف پیٹر سے لے کر تمام سنجیدہ ماہرین جو بلوچ تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ انہی رویوں کو نقصان دہ قرار دے چکے ہیں۔ مسلسل منفی پروپیگنڈہ آخر کس بنیاد پر؟ مسلسل الزامات اور کردار کشی کا حاصل حصول کیا ہے؟

آج ہر لیڈر ہر گروہ isolate ہوچکا ہے باوجود یورپ کی آزاد فضاؤں میں بیٹھنے کہ جبکہ جنگ زدہ خطے میں دن رات سیکورٹی تھریٹس کے باوجود بلوچ جہدکار ایک ہی پیج پر کھڑے ہیں، فرق کیا صرف رویوں کا نہیں؟

ایک عملی طور پر مختلف محاذوں میں الجھا ہوا ہے لیکن پھر بھی اپنی توانائیوں کا استعمال تحریک کو متحد و منظم کرنے میں کررہا ہے جبکہ دوسرا ایک safe zone میں بیٹھ کر بھی تقسیم و مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔

قومی تحریک آزادی جتنی بڑی ذمہ داری ہے، اتنی ہی زیادہ سنجیدگی کا مطالبہ بھی کرتی ہے وگرنہ جس قبائلی مزاج کے مطابق ہمارے باہر بیٹھے لیڈران چل رہے ہیں اس میں ماسوائے مزید الجھنوں کے کوئی بھی سلجھن دور دور تک نظر نہیں آتی۔

ذرا اندازہ لگائیں کہ اس نئے فیز میں ساری انرجی صرف اس بات پر صرف کی گئی کہ کسی نہ کسی طریقے سے بلوچ جہدکاروں میں اتحاد کو روکا جاسکے اور اپنے ماتحت تنظیموں کو قابو میں لایا جاسکے۔

آج کم از کم ایک مرتبہ بیٹھ کر ان رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے تحریک کو شدید نقصانات سے دوچار کردیا اور بالخصوص بلوچ ڈائسپورا کی سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر بلوچ تحریک کو اجاگر کریں۔

بی این ایم، ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن، بی آر پی اور فری بلوچستان موومنٹ ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دیں جس میں سنجیدہ لوگوں کا ہونا لازم ہے جو مسائل پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے کم از کم جس انسانی بحران سے بلوچ گلزمین گذر رہی ہے اس پر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں۔

آل بلوچ کانفرنس بلانے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے جہاں تمام بلوچ بیٹھ کر سنجیدگی سے تحریک کو منظم کرنے کے لیے سیاسی لائحہ عمل تیار کریں اور بلوچ اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیں۔ بلوچ قوم کو اس وقت عالمی سطح پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اپنے انا کی قربانی لازم ہے ۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔