بلوچ طلبہ کی آواز – سراج بلوچ

568

بلوچ طلبہ کی آواز

تحریر: سراج بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“ہر قوم کا مستقبل اُس کا اسٹوڈنٹس طبقہ ہوتا ہے، یہ طبقہ انتہائی حساس اور باشعور طبقہ ہوتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے قوم کا مستقبل جیل قانوں میں بند ہے” مہذب قومیں اور مہذب معاشرے اپنے پڑھے لکھے اور باشعور طبقے کو اپنے قومی بقا اور تشخص کا ضامن سمجھتے ہیں۔ لیکن یہاں صورت حال مختلف ہے۔ بلوچ طلباء اج کے دور میں شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں، ان کو بلا کسی ٹھوس ثبوت اور وجہ کے لاپتہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اغواء سے طلباء ذہنی بیماریوں اور الجھن کے شکار ہیں ۔ پڑے لکھے طلباء کو اغوا اور لاپتہ کرنے سے ملکی آئین اور قانون پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں ۔ جیہند بلوچ کے جبری اغوا اور تاحال گمشدگی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

جیہند بلوچ اور دوسرے لاپتہ افراد کی گمشدگی حکومت کے لیئے سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔ جسے موجودہ حکومت صوبائی و قومی اسمبلی کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آج بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے، جو ایک سنگین مسئلہ ہے اور اسے فوری طور پر حل کیا جائے۔ کیونکہ اگر اس طرح کے مسائل کا حل نہیں نکلا تو اسکے کئی منفی نتائج نکل سکتے ہیں، جو مستقبل میں ملک کے معاشی و سماجی ترقی کے راستے میں حائل ہو سکتی ہیں۔

جیہند بلوچ ذکریا یونیورسٹی ملتان کا طالب علم ہے، جسے حال ہی میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 31 نومبر 2018 کو گھر میں گھس کر جیہند بلوچ اور اس کے چھوٹے بھائی حسنین کو اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ جیند بلوچ اور اس کی بھائی کی گمشدگی حکومت کے لیئے سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت اس سوال کا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

جیہند بلوچ کا تعلق بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہے، جس نے ہمیشہ آئینی دائروں میں رہ کر جمہوریت اور بلوچ اسٹوڈنٹ کے حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اس طرح کے اسٹوڈنٹ جو آئین کی عزت و احترام کرتے ہیں اور جمہوریت کو مضبوط کرنے میں کوشاں ہیں، ان کی گمشدگی عالمی سطح پر انسانی حقوق اور ملکی سطح پر آئین کی خلاف ورزی ہے۔

جیہند بلوچ کی آواز سارے اسٹوڈنٹس کے لیئے ایک مثال ہے، جس نے ہمیشہ طلبہ حقوق کے لیئے اپنی آواز بلند کی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیئے ایک آواز ہوکر جدوجہد کی ہے۔ اگر اُس کے دل میں ہمارے لیئے جذبات و احساسات تھے تو آج ہم کیوں خاموش ہیں اُسکی کمشدگی پر؟

موجودہ حکومت میں بلوچستان سمیت دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں پہ پابندیاں اور بلوچ طالب علموں کی گمشدگی قابل مذمت ہے، جو ایک سازش کے تحت سوچا سمجھا منصوبہ بندی ہے تاکہ بلوچ طالب علموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کو تعلیم اور علم سے کنارہ کش کیا جاسکے اور با آسانی بلوچ ساحل و وسائل پر قبضہ جمایا جاسکے۔

ابھی حال ہی میں پاکستان کے مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں میں 20 دنوں کے اندر 15 سے 20 طلبہ گمشدگی کا شکار بن گئے ہیں۔ اس طرح کے غیر اخلاقی عمل سماج کے ہر فرد کے اندر شک و شبہ پیدا کرتی ہیں اور ملک کے خلاف دشمنی کا بیج بو دیتی ہے۔ جس سے ملک میں بد نظمی اور انتشار پھیل جاتا ہے۔

پاکستان کی جمہوری نظام کی ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ طلبہ یونینوں پر لگائے جانے والی پابندیاں رہی ہیں۔ انہی پابندیوں کی وجہ سے آج تک پاکستان حقیقی لیڈروں سے محروم رہا ہے۔ اگر تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے ہر فوجی حکومت میں طلبہ سیاسی جماعتیں بحران کا شکار ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ بلوچ طالب علموں کو سیاست سے دور کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے تاکہ بلوچستان میں لوٹ کھسوٹ آسان ہو جائے۔ بد قسمتی سے ان حکمرانوں کو قوم کے ان لیڈروں کا اعتماد حاصل ہے جو بلوچستان میں بلوچوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

حکومت کو چاہیئے کہ وہ ملکی آئین کی پابندی کریں، اپنے شہریوں کی زندگیوں اور تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس عید میں اپنے بلوچ ہونے کا فرض نباہیں جیند بلوچ اور تمام لاپتہ افراد کے لیۓ اپنی آواز بلند کریں۔ تاکہ وہ جلد سے جلد بازیاب ہوجائیں ۔ اور اپنے پیاروں سے مل سکیں تاکہ ملکی آئین اور قانون پر عوام کا اعتماد بحال ہوسکے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔