بلوچ جبری گمشدگی کا دن
قمر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ماہرین سیاسیات کے نزدیک سیاست مفادات کا کھیل ہے۔ اس قول کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو ہمیں ایسے ہزارہا مثالیں ملیں گی جہاں طاقتور قوموں نے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ کمزور قوموں پر غالب آنے کی کوشش کی ہیں۔ طاقتوروں نے طاقت کے بے دریغ استعمال سے مغلوب اقوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے، ماورائے عدالت گرفتاری، قتل عام، فوجی آپریشنز، نوجوانوں کو ناکارہ بنانے کے لیئے منشیات کا کھلے عام استعمال کی لت میں ڈالنا یا آبادیوں کے اندر ایٹمی تابکاری کے ذریعے قوموں کو کچلنے کی کوشش تاریخ کے صفحوں میں آج بھی پیوست ہیں۔
جیسے جیسے دنیا میں ترقی کی رفتار تیز ہوتی رہی، دنیا میں مظلوم اقوام کی تذلیل کا عمل بھی آگے بڑھتا رہا۔ تعلیم اور صحت کا نظام بد سے بد تر بنایاگیا تاکہ مظلوم کبھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ ہوں۔
کروڑوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بنا دیئے گئے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ معذور ہوئے۔ کئی ماؤں کے لال غائب کردیئے گئے، انسانیت سسکیاں لیتی رہی، تڑپتی رہی لیکن اسکی آواز کو طاقتوروں نے دبائے رکھا اور انسان کو انسانیت کی منزل سے گرا کر حیوان سے بھی بد تر زندگی گذارنے پر مجبور کردیا گیا۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں طاقت کے استعمال نے انسان کو انسان کی قدرو منزلت سے گرا کر وحشی درندہ بنایا، جسکے مفادات کے آگے کسی شئے کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ ان عالمی جنگوں میں انسانی تذلیل کے ایسے واقعات سامنے آئے جس کی مثال حیوانیت کے دور میں بھی نہیں ملتی۔
انسانیت کو تضحیک آمیز سلوک سے محفوظ رکھنے کے لیئے چوبیس اکتوبر انیس سو پینتالیس کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ اقوام کے درمیان دوستی اور تعاون کا جذبہ بیدار کرکے دنیا کو جنگ و جدل سے محفوظ رکھا جائے۔ دس دسمبر انیس سو اڑتالیس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے متعلق قوانین وضع کیئے تاکہ دنیا میں انسانیت پر ہونے والے مظالم کی شدت کو کم کیا جاسکے۔
اقوام متحدہ کے منشور کے دفعہ پانچ کے تحت کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ ،انسانیت سوز سزا نہیں دی جائیگی۔ دفعہ دس کے مطابق ہر شخص کو یکساں طور پر حق حاصل ہے کہ اسکے حقوق و فرائض کا تعین یا اسکے خلاف کسی عائد کردہ جرم کے بارے میں مقدمے کی سماعت آزاد اور غیر جانبدار عدالت کے کھلے عام اجلاس میں منصفانہ طور پر ہو۔
دفعہ گیارہ کے مطابق ایسے ہر شخص کو جس پر کوئی فوجداری کا الزام عائد کیا جائے، بے گناہ شمار کیئے جانے کا حق ہے تاوقتیکہ اس پر کھلی عدالت میں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہوجائے اور اسے صفائی پیش کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔
انسانیت کو شرمساری سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ نے متعدد بار جبری گمشدگی کو انسانی وقار کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ لیکن دنیا میں اب بھی استحصالی ریاستوں کی جانب سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے، خاص کر ایشیائی ممالک میں شدت کے ساتھ ماورائے عدالت گرفتاری کا عمل جاری ہے اور اس انسانی مسئلے کے لیئے اقوام متحدہ کو مذید سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بیسویں صدی کے آخری عشرے میں جبری گمشدگی میں کافی تیزی آئی، جب فوجی آمریت کے ذریعے لوگوں کی آزادی کو چھین کر انہیں قید و بند کی صعوبتیں دی گئیں۔ ان اذیتوں کے خلاف انسانیت سے محبت کرنے والی ایک تنظیم نے پہلی بار انیس سو اکیاسی میں کوسٹاریکا میں لاپتہ افراد کا دن منا کر اس اہم انسانی مسئلے کو اجاگر کیا اور آج تک یہ سلسلہ اقوام متحدہ کی سربراہی میں جاری ہے اور ہر سال تیس اگست جبری گمشدگی کے شکار افراد کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
آج بھی تیس اگست کو ارجنٹائن، میکسیکو اور دیگر ممالک کی مائیں بہنیں اپنے عزیز و اقارب کی یاد میں سڑکوں پر گذارتی ہیں، ان کے لیئے شمعیں روشن کرتی ہیں تاکہ انسانیت کی سر بلندی کے لیئے جن راہوں کا انتخاب انکے فرزندوں نے کیا ہے، وہ کبھی بجھنے نہ پائے۔
آج بھی کئی ممالک میں قابضین و استحصالی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے لوگوں کو جبری گمشدہ کیا جارہا ہے جس میں ریاست پاکستان سر فہرست ہے، جس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انکے انٹیلیجنس ادارے براہ راست لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد نا معلوم مقام پر منتقل کرتے ہیں اور دوران تفتیش کئی لوگ ماورائے عدالت قتل کیئے جاچکے ہیں، جو عالمی انسانی حقوق کے قوانین سمیت خود ریاست پاکستان کے آئین کی دفعہ نو جس کے مطابق کوئی بھی شہری اپنی زندگی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مکمل آزادی سے گذار سکتا ہے اور دفعہ دس جو کسی بھی شہری کو بنا کسی وجوہ کے گرفتاری کی ممانت کرتا ہے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ آئین پاکستان کے مطابق لوگوں کو گرفتار کرنے کے بعد عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور اسے مکمل اپنے دفاع کا حق تفویض کیا جائے۔ حالانکہ یہ قوانین کسی بھی شہری کے اہلخانہ کو اسکی بازیابی کے مطالبے کا اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کرتے ہیں لیکن غیر فطری ریاست پر امن طریقوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والوں کو خلاف قانون اور غدار بنا کر پیش کرتا ہے اور انہیں طاقت اور تشدد کے استعمال سے خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، جو ہر دور میں قابضین کا وطیرہ رہا ہے۔ ریاست پاکستان بھی اپنے آئین کے خلاف بلوچستان میں فوجی آپریشن کے ذریعے لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتار کررہا ہے اور قانون و آئین کا بھاشن دینے والے پارلیمنٹینرز خاموش تماشائی کا کردار ادا کرکے اپنی جانب داری کو واضح کررہے ہیں۔
جبری گمشدگی انسانی آزادی، تحفظ اور زندگی کے حقوق سے محرومی کا نام ہے۔ جبری طور پر لاپتہ ہونے والا فرد نہ صرف تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے بلکہ اسے تمام آئینی و قانونی حقوق سے بھی محروم کیا جاتا ہے اور اسکے اہلخانہ اسکے زندگی کے بارے مکمل لا علم رکھے جاتے ہیں، جو ایک انسان کے ساتھ ریاست کا سوتیلی ماں جیسے سلوک کی درد بھری کہانی ہے، جسے بلوچستان کا ہر ماں، ہر بہن، ہر بھائی اور ہر بچہ پچھلے ستر سالوں سے برداشت کررہا ہے۔
ماؤں، بہنوں اور بچوں کی تڑپ عرش کو ہلا رہی ہے لیکن بہرے و گونگے حکمران اس آواز کو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ انسان اپنے پیاروں کی جدائی میں ایک انجانی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور محبت و دوستی کا احساس اسے ہمیشہ پیاروں کے لیئے کبھی پریس کلبوں میں جانے پر مجبور کرتا ہے اور کبھی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھنے کو لیکن بلوچستان میں ریاست پاکستان کی طرف سے متکمن نام نہاد قوم پرست اپنے آقا کی خوشنودی اور پیٹ پوجا کی خاطر ماؤں اور بہنوں کی آواز سننے سے مکمل عاری ہیں۔
ماؤں اور بہنوں کی تڑپ انکی آہ کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لئے بلوچستان کی سب سے متحرک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بی ایس او آزاد نے دو ہزار سترہ میں ہر سال آٹھ جون کو بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے منانے کا تاریخی فیصلہ کیا، جو تنظیم کے سابقہ وائس چئیرمین ذاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کا دن ہے۔ جسے آٹھ جون دو ہزار نو کو ریاستی سیکورٹی فورسز نے مستونگ کے علاقے پڑنگ آباد سے دوستوں کے ہمراہ لاپتہ کردیا تھا، دوستوں کو بعد میں رہا کردیا گیا لیکن آج گیارہ سال کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود ذاکر مجید بلوچ کا تاحال کچھ پتہ نہیں۔ ذاکر مجید کی بازیابی کے لیئے تنظیم اور انکے خاندان کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی گئی، احتجاجی مظاہرے، بھوک ہڑتالی کیمپ، تین ہزار کلو میٹر طویل لانگ مارچ، ریلیاں، اقوام متحدہ کے سامنے کیس کو پیش کیا گیا، مستونگ میں ایف آئی آر اور بلوچستان ہائی کورٹ میں پیشی کے لیئے بھی گئے لیکن ذاکر مجید کو تاحال بازیاب نہیں کیا گیا۔
ذاکر مجید بلوچ ایک طالب علم تھے، جو لسبیلہ یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے طالب علم تھے، جنہیں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں پابند سلاسل کیا گیا کیونکہ وہ ہمت کا پیکر ایک نوجوان تھا۔ جس کی زندگی کا مقصد بلوچ قوم کے لئے ایک ایسے ریاست کا قیام تھا، جہاں انسان کو ذلت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور نہیں کیا جاسکے جہاں وہ سر اٹھا کر آزادی کے ساتھ اپنی زندگی کو پر امن طریقے سے گذار سکیں لیکن طاغوتی طاقتوں سے ایسے پر کشش اور منفرد نوجوان برداشت نہیں ہوتے اور وہ انہیں قید کرنے یا قتل کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ذاکر مجید جیسے باہمت نوجوان قوم کے نوجوانواں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں جو اپنے خون سے وہ شمع روشن کرتے ہیں جسے بجھانے کی طاقت فرعون وقت کو آج تک نصیب نہیں ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں فرعون کبھی ذاکر مجید کی آواز اور اسکے نظریات کو دبا سکے گا۔
آٹھ جون کو بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے منانے کا مقصد ان بلوچ نوجوانوں کے کیس کو عالمی دنیا میں اجاگر کرنا ہے، جو ماورائے عدالت گرفتار کئے گئے ہیں جنہیں ٹارچر سیلوں میں اذیت ناک سزا دے جاتی ہیں۔ جبری گمشدگی کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے کیونکہ ایک فرد کے لاپتہ ہونے سے پورا خاندان گمنامی و کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے اور موجودہ دور میں بلوچستان کسمپرسی اور مجبوری کی وہ داستان تڑپ تڑپ کر بیان کررہا ہے۔
جہاں مائیں گیارہ گیارہ سالوں سے اپنے پیاروں کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جہاں بہنیں ڈرا دھماکر خاموش کرائی جاتی ہیں کہ اگر بھائی کی بازیابی کا مطالبہ کرو گے تو خاندان میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
جہاں پریس کلبوں میں ماؤں، بہنوں اور بچیوں کی چیخیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ جہاں ہر گھر ایک ماتم کدہ کا منظر پیش کررہی ہے۔ بلوچستان جہاں انسانیت کی تذلیل کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں انسانیت نام کی کوئی شئے نہیں، بس جنگل کا قانون ہے جہاں طاقتور اور مسلح افراد دن دہاڑے کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر بلوچ روایات کو پامال کرتے ہوئے نوجوانوں کو اٹھا کر لاپتہ کردیتے ہیں۔
بلوچ مِسنگ پرسنز کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیئے بی ایس او آزاد نے جو تاریخی و شعوری فیصلہ کیا وہ لائق تحسین ہے کیونکہ جبری گمشدگی کا مسئلہ بلوچستان میں ایک اہم و سنگین مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیئے بلوچ قوم کے تمام آزادی پسند پارٹیوں کو ایک سخت موقف کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔ اتحاد ہی وہ واحد قوت ہے جو قوم کی کشتی کو پار لگا سکتی ہے۔ بلوچ مِسنگ پرسنز کی آڑ میں جو پارلیمنٹ پرست جماعتیں اپنی سیاست چمکا رہی ہیں انکی حیثیت کو قوم کے سامنے اجاگر کرنے کے لئے بھی واضح و مضبوط پالیسیوں پر کار بند رہنے کی ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔