بلوچستان کا تعلیمی نظام اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: سالم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک کہاوت آپ لوگوں نے سنا ہوگا جو بہت ہی زیادہ مشہور ہے کہ خدا انکی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.کیونکہ ہر کام کے لیئے جب آپ دوسرے کا انتظار کرتے ہیں تو وہ کام کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا. یہ بات سچ ہے کہ ہر فرد پر دوسرے افراد کے کچھ ذمہ داریاں ہوتے ہیں لیکن ہر کام کو دوسرے کے سپرد کرکے اپنے آپ کو اس سے بچانا میں سمجھتا ہوں شاید بہت بڑی کمزوری ہوگی.
کہتے ہیں کہ ریاست ماں ہوتی ہے یہ اس لیئے کہ جس طرح ایک ماں تمام خطروں سے خود کھیل کر اور تمام مشکلات کا خود سامنا کرکے اپنے بچوں کو بچا کر انکی حفاظت کرتی ہے بالکل اسے طرح ریاست بھی ماں کی طرح اپنا فرض نبھا کر اس ریاست میں رہنے والوں کا رکھوالا بن جاتا ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس میں رہنے والے تمام لوگوں کی جان,مال اور جائیداد کی حفاظت کرے ان کو وہ تمام بنیادی حقوق مہیا کرے جو کسی انسان کو ضرورت ہوتے ہیں، جیسے کہ تعلیم ,صحت,رہائش,سیکورٹی, روزگار وغیرہ. ایسا نہیں ہے کہ تمام کی تمام ذمہ داریاں اور فرائض صرف اور صرف ریاست ہی پر عائد ہوتی ہیں اور اس میں رہنے والے تمام ذمہ داریوں اور فرائض سے مبرا ہوں, نہیں بلکہ کسی ریاست میں رہنے والوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ریاست میں رائج قانون کی نہ صرف عزت کریں بلکہ سختی سے اس پر عمل پیرا بھی ہوں اور سب سے بڑھ کر جب ریاست کی بقاء یا سلامتی خطرے میں ہو تو اس میں رہنے والے لوگوں کو چاہیئے وہ اس کے لیئے اپنے مال جائیداد اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی اس ریاست کیلئے قربان کردیں، جس کی وہ حفاظت کرتا آرہا ہے تاکہ دنیا میں وہ ملک ,قوم یا معاشرہ اپنا مقام برقرار رکھ سکے.
اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہےکہ اس وقت کیا کیا جائے، جب ریاست اپنی پسماندگی, وسائل کی کمی,ان کا صحیح طریقے سے استعمال نہ کرکے اور دوسرے کئی مسائل کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے منہ پھیر لے اور وہ نہ صرف آپکی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے بلکہ وہ تمام بنیادی حقوق بھی فراہم نہ کرسکے جو کسی ریاست کو کرنے چاہئیں. تو کیا ایسی صورتحال میں ہماری ذمہ داریاں زیادہ نہیں ہو جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ جاننا ضروری ہوجاتا ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہوتی ہیں کہ ایک جمہوری ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے حالانکہ ریاست میں نظام کو چلانے کیلئے جو لوگ منتخب کیئے جاتے ہیں، وہ سب اس ریاست, قوم اور اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں. تو ایسے میں ہمیں کیا یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ اس پسماندگی میں ہمارا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے؟
اب ہم سب سے پہلے اپنے ملک کا مثال لیں تو پچھلے 70 سالوں سے ہم نے بھوک, پیاس, جنگ, کرپشن, الزام تراشی, دہشت گردی, بیروزگاری, منافقت اور دھوکہ دہی کے علاوہ ہم نے کیا حاصل ہے؟ اور اس کیلئے کہیں نہ کہیں ہم بھی ذمہ دار ہیں حالانکہ کہ ہم ہر بات پر سارا کا سارا دوش گورنمنٹ پر ڈال دیتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں.
جب بھی ہم بلوچستان کے متعلق سوچتے ہیں تو ہمیں بھوک, پیاس,بیروزگاری, غربت, بد امنی,کچی سڑکیں, پھٹے پرانے کپڑے, جھونپڑیاں, خیموں کے نیچے اسکول میں پڑھتے بچے, مٹکوں میں دو کلو میٹر دور سے پانی لاتی عورتیں, ہسپتالوں میں تڑپتے مریض اور اس طرح کے بہت سے خطر ناک مناظر دیکھنے میں ملتے ہیں.
اور جب ہم بلوچستان گورنمنٹ کی بات کرتےہیں تو چند گنے چنے لوگ اور انکا بار بار چہرہ بدل کر نئی صورت میں گورنمنٹ میں آنا, کرپشن,میرٹ کی پامالی,سفارشی کلچر,سفارشی لوگ,ذاتی ضد و انا, ٹھیکوں اور پوسٹوں کی بندر بانٹ,اور سیاست میں ایک دوسرے پر الزام تراشی دیکھنے کو ملتا ہے.اور اسی بلوچستان گورنمنٹ اور اس کے اس رویتی رویے نے کافی حد تک بلوچ راج, بلوچ تاریخ اور بلوچستان کو متاثر کیا ہے. اور اسی رویے نے بلوچستان کے مسائل بڑھانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے کیونکہ شروع سے لیکر آج تک جو بھی گورنمنٹ آئی اس نے کبھی بھی بلوچ قوم کی پسماندگی و مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سب اپنی جیبیں گرم کرکے چلے گئے
.
اگرچہ بلوچ سرزمین پر ہزاروں قسم کے معدنیات,سیندک,ریکوڈک,گڈانی,گوادر کا وسیع ساحل اور اس پر ہونے والی بلینز ڈالرز کا انویسٹمنٹ موجود ہیں. لیکن اسکے باوجود بھی یہاں سے احساس محرومی ختم نہ ہو سکا اور نہ ہی اتنے سارے وسائل بلوچستان کی تقدیر بدل سکے.
بلوچستان ہر طرح سے مسائل میں گرا پڑا ہے، جہاں 86 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں اور جہاں 52 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور جہاں 18 لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں تو ایسے خطے میں تعلیم اور صحت کا نظام کیسا ہوگا اس کا اندازہ لگانا شاید کوئی مشکل کام نہیں.
اس پر کس کو دوش دیا جانا چاہیئے؟ ایک طرف بلوچستان کی گورنمنٹ ہے جو کسی بھی طور پر بلوچستان کے بنیادی مسئلوں کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے تو دوسری طرف ہم ہیں جو ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں حکومت کو کھینچ لاتے ہیں اور خود کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں.
کسی بھی معاشرے میں موجود لوگوں کے لیئے سب سے بڑی ضرورت روزگار,صحت اور تعلیم کی ہوتی ہے. چونکہ روزگار کا کسی حد تک لوگ اپنی طرف سے انتظام کرتے ہیں لیکن صحت, تعلیم کسی ریاست اور گورنمنٹ کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کو صحت اور روزگار کی معیاری سہولت مہیا کریں. سب سے بڑھ کر تعلیم کا مسئلہ نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے. کیونکہ تاریخ میں جن قوموں اور معاشروں نے ترقی کی ہے ان میں تعلیم کا کردار سب سے بڑا ہے. اور دنیا میں اس طرح کے کئی مثالیں موجود ہیں.
آئین پاکستان کے شق نمبر 25(الف) میں یہ واضح طور پر موجود ہے کہ پانچ سال سے لیکر سولہ سال تک ریاست مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی. لیکن زمینی حقائق اس شق کے منافی نظر آتے ہیں. کیونکہ یہاں پر تعلیم کے نام پر برائے نام اسکول چلائے جاتے ہیں اور اسکولوں کے نام پر صرف فنڈز نکال کر کرپشن کے نظر کیئے جاتے ہیں لیکن تعلیم نہیں دی جاتی. ایک طرف سارا ملک تعلیم کے حوالے سے دیوالیہ بن چکا ہے تو دوسری طرف رقبے کے لحاظ سےاس کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان نے اس حوالے سے بڑا نام کمایا ہے جو کہ پورے ایشیاء میں پسماندگی اور غربت کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے.
دوسرے مسائل سے قطع نظر چونکہ ہم طالب علم ہیں تو ہم تعلیم پرہی بحث کریں گے. بلوچستان تعلیمی حوالے سے پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے، جہاں بمشکل 41 فیصد ہی شرح خواندگی پائی جاتی ہے اور جب ہم لڑکیوں کی تعلیم کی بات کریں تو شرح خواندگی مایوس کن حد تک پہنچ چکی ہے، جو صرف 13 فیصد ہے. بلوچستان میں اسکولوں کی تعداد 12500 ہے لیکن ان میں 7000 اسکولیں کلاسز اور اساتذہ سے محروم ہیں.اور بچی کچھی کسر 5000 گھوسٹ اساتذہ نے پوری کی ہے جو تنخواہیں تو اسکولوں کے نام پر لیتے ہیں لیکن اسکولوں کا منہ کبھی نہیں دیکھا ہے. تو یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان سب کے پیچھے کون کون اور کیا کیا عوامل ہوسکتے ہیں؟ ہر بار الیکشن میں نئے نئے لوگ نئے نئے نعروں کے ساتھ آتے ہیں لیکن جوں ہی الیکشن جیت جاتے ہیں تو اس کے بعد وہ “نایاب” ہوجاتے ہیں. اگر ہر بار ہمارے ساتھ یہ معاملہ رہتا ہے تو کیا ہم ہر بار اگلے مرتبے کا انتظار کریں؟
اس سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے بڑھتے جائیں گے. کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اب ہم خود توکل کرکے تبدیلی کا نہ صرف خواب دیکھیں بلکہ اس کیلئے عملی کوششیں بھی کریں.اور اپنی قوم کو تعلیم دینے کی ذمہ داری ہم خود اٹھائیں. ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں قوم کے بیٹے بیٹیوں نے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے کافی اچھے اقدام اٹھائے ہیں، جن میں ہانی, ماہین, غموار اور زرگل زبیر کے نام سامنے آتے ہیں جنہوں نے اس دور میں بھی اپنے قومی ذمہ داریوں کا احساس کرکے ان ذمہ داریوں کو پورا کررہے ہیں اور مختلف علاقوں میں بچے بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں. تو یہاں پر یہ بات بھی اٹھتی ہے کہ اگر قوم کی بیٹیاں اگر اس طرح کی کرداریں ادا کرسکتی ہیں تو کیا قوم کے بیٹوں کو اس لحاظ سے ایک اچھا رول ادا کرنے کے متعلق سوچنا نہیں چاہیے؟
بلوچستان میں ہزاروں قسم کے مشکلات کے باوجود بلوچستان کے غریب کسان اپنی جمع پونجی اکٹھا کرکے اپنے بچوں پر خرچ کرکے انکو کوئٹہ کراچی,حب چوکی اور ملک کے دوسرے حصوں میں تعلیم کے غرض سے بھیج دیتے ہیں لیکن وہ اکثریت کیا کرے جو بمشکل دو وقت کی روٹی ہی کما سکتی ہیں۔
کیا بحیثیت بلوچ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں انکا سہارا بنیں؟ کیا ہم صرف ہاتھ پر ہاتھ رک کر بیٹھے رہیں جبکہ ہمیں پتا ہے کہ بلوچستان کے نا اہل حکومت ہمارے تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کے قابل نہیں اور اگر اس دوران ایسی حکومت آبھی جائے تو اس کو تعلیم کے مسئلے کو سدھارنے میں سالوں لگ جائیں گے. تو ایسے حالات میں کیا بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کہ ذمہ داریاں حد سے زیادہ نہیں بڑھ جائیں گی?
اگرچہ بلوچستان میں86 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں اور ایک بڑی اکثریت ناخواندہ ہے لیکن پھر بھی بلوچستان کے تمام اضلاع میں سے ایسے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو باہر کوئٹہ کراچی,حب,اوتھل اور صوبے سے باہر تعلیم حاصل کررہے ہیں، جن کو میں نے مندرجہ بالا علاقوں میں تعلیم حاصل کرتے دیکھا ہے اور جن کا تعلق بلوچستان کے تمام علاقوں سے ہیں جن میں آواران,خضدار,ڈیرہ بگٹی,چاغی,کوہلو,بولان سمیت دوسرے علاقوں سے ہے. اور سب سے اچھی بات کہ یہ مختلف کلاسز اور مختلف ڈپارٹمنٹس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں.غرض کہ میٹرک سے لیکر ایم فل ,پی ایچ ڈی تک کے طالبعلم ملیں گے اور ان کا تعلق بلوچستان کےتمام علاقوں سے ہے.اور سب کی چھٹیاں سال کے مختلف مہینوں میں ہوتے ہیں اور تقریبآ سب اپنی چھٹیاں اپنے گھر,گاؤں اور علاقوں میں گذار دیتے ہیں. ویسے ہم ہر وقت سوشل میڈیا پر انسان دوستی ,قوم دوستی کا درس دیتے پھرتے ہیں اور اپنے آپکو غریب طبقے کا سب سے بڑا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں لیکن جب حقیقی اقدام اٹھانے کا وقت آتا ہے تو ہم کیوں پیچھے نظر آتے ہیں؟
کیا ہمیں یہ ہمت نہیں ملتی جب تک ہم اپنے علاقوں میں موجود ہوتے ہیں اس وقت تک ہم اپنے اسکولوں میں جاکر جتنا علم ہمارے پاس ہوتا ہے اس کو اپنے قوم کے بچوں میں منتقل کردیں یا ہم میں یہ حوصلہ پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اپنے گاؤں یا اپنے ان قریبی گاؤں میں جائیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں جہاں پر نہ تو اسکول اور نہ ہی اساتذہ موجود ہیں.
کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہم سب باقاعدہ یہ منصوبہ بنائیں کہ ہم طالبعلموں میں سے جو بھی اور جب بھی اپنے علاقوں میں جائیں گے تو وہاں کے بچوں کو پڑھانے کا بیڑہ اپنے اوپر اٹھا لیں. کیونکہ مصیبت کی اس گھڑی سب سے اہم رول ہم طالبعلموں کا ہی دکھائی دیتا ہے.اور ہمیں یہ انتظار بالکل نہیں کرنا چاہیئے کہ گورنمنٹ آکر ہمارے سارے مسائل حل کرے گا بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت ہر وہ اقدام اٹھائیں جو ہمارے لیئے, ہمارے قوم و معاشرے کیلئے سودمند ثابت ہوں.
اگرچہ اس چھوٹے سے اقدام سے جو بظاہر انفرادی طور پر ہمیں آسان و معمولی لگے لیکن مجموعی طور پر یہ ہم پر جو ذمہ داری عائد کریگی اس کو پورا کرتے کرتے ہم شاید اپنے تعلیمی نظام میں بہت سی تبدیلیاں لا چکے ہونگے. تو ہمیں چاہیئے کہ ہم نوجوان تبدیلی کا ذمہ اپنے کندھوں پر نہ صرف اٹھائیں بلکہ عملی طور پر ہم اس معاشرے کے لیے کچھ کریں.کیونکہ چھٹیوں کے موسم میں اپنے علاقوں کے بچوں کو پڑھانا میرا نہیں خیال کہ اتنا مشکل کام ہے جبکہ اسکے معاشرے کے ہر فرد پر نہایت ہی اچھے اثرات پڑیں گے. اور ہمارے اس عمل سے شاید ان نام نہاد لوگوں کو بھی کچھ شرم آئے جو بظاہر تو اپنے آپ کو اسکول کے ٹیچرز گردانتے ہیں لیکن کھبی اسکول کا گیٹ تک نہیں دیکھا ہے اور وہ والدین بھی ان اساتذہ ,اسکولوں کے انتظامیہ کے خلاف کھڑے ہو جائیں جن کے بچوں سے تعلیم کا حق چھین لیا گیا ہو اور ان پر علم کے دروازے بند کیئے گئے ہوں. اور سب سے بڑھ کر ہم ایک ایسا سلسلہ قائم کر سکتے ہیں جہاں ہر طالبعلم اپنے دوسرے بھائیوں کی مدد کرنے کیلئے تیار ہوگا. تو شاید اسی طرح اپنی ذمہ داریوں کو جان کر اور اپنی مدد آپکے تحت ہم آہستہ آہستہ ایک دن اپنے تمام مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔