بلوچ، عید اور پریس کلب ۔ قمر بلوچ

320

بلوچ، عید اور پریس کلب

قمر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

‎عید خوشیوں کا ایک تہوار ہے، جسے دنیا بھر کے مسلمان اپنے رسم و رواج کے مطابق مناتے ہیں، عید کے دن نئے کپڑے پہن کر شکرانے کی نماز ادا کرکے دوستوں اور رشتے داروں سے عید ملنے جاتے ہیں۔ بچوں کو عیدی دینا، دوستوں اوررشتہ داروں کو دعوت پر بلانا، ان کی دعوت کھانا، غریب و نادرا لوگوں کی مدد کرکے اپنی خوشیوں میں شامل کرنا وغیرہ عید کے خوشگوار لمحات میں شامل ہوتے ہیں۔عید نام ہے خوشی اور مسرت کا۔ اس مسرتوں بھرے لمحات کو ہر طبقے کے لوگ جی بھر کہ انجوائے کرتے ہیں۔

عید اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لیئے ایک تحفہ ہے، جسے وہ اپنے پیارے بندوں کو انعام کے طور پر دیتاہے، لیکن شیطان کے چیلوں نے مظلوم و کمزور قوموں کو اس انعام سے ہمیشہ محروم رکھا ہے۔ شیطان کے چیلوں نے ہر عہد میں کمزوروں پر اپنے شکنجے گاڑھ کر انہیں اپنا غلام بنایا ۔ آزادی عید سے بھی بڑی خوشی اور تہوار ہے اور دنیا کے ہر انسان اور ہر قوم کو آزادی سے زندگی کے ہر لمحات کو انجوائے کرنے کا حق حاصل ہے بقول روسو کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے آزادی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے لیکن دنیا میں موجود سرکشوں کے ٹولے نے بشر کو آزادی اور خوشی کے لمحات انجوائے کرنے سے یکسر محروم کرکے خدا کے انعام و کرام سے بھی محروم کردیا ہے۔

کمزور و غلام قوموں کی عیدیں تفریحی مقامات پر نہیں بلکہ پریس کلبوں اور سڑکوں پر احتجاج کرکے گذر جاتی ہیں۔ آج کے اس گلوبل ولیج کے دور میں بھی انسان غلامی جیسی لعنت کا شکار ہے۔ ظالموں اور سرکشوں کے ٹولے نے غلامی کو اس قدر مضبوط کردیا ہے کہ پسماندہ و کمزور ملک ان کے شکنجے سے آزاد ہونے کی جدوجہد تو کررہی ہیں لیکن ظالم دنیا میں ان کی آواز سننے والا کوئی موجود نہیں۔ دنیا کی تاریخ ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ مظلوم و کمزور قوموں نے اپنے ہمت، جدوجہد سے وقت کے فرعونوں سے اپنی آزادی حاصل کی، آج وہ قومیں عید کے پرمسرت لمحات کو بھرپور انجوائے کررہے ہیں۔ اس سے قبل غلامی کے عہد میں ان کی زندگی اجیرن بن چکی تھی اور وہ روتے بلکتے اپنے پیاروں کو یاد کرکے ان پرمسرت لحمات کو بے بسی اور مایوسی سے صرف محسوس کرسکتے تھے، لیکن ان کی آج کی زندگی ماضی سے مختلف ہے.ظالم کے تشدد اور خوشیاں چیھننے میں پاکستان سر فہرست ہے، جس نے دنیا میں دہشتگردی کو ہوا دیکر دنیا کا امن تہہ و بالا کردیا ہے۔

اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک نے بلوچستان پر قبضہ کرکے گذشتہ 70 سالوں سے بلوچ قوم کو ان پرمسرت لمحات سے محروم کردیا ہے۔ معدنی وسائل سے مالا مال سرزمین میں بسنے والے غریب عوام عید کی خوشیوں سے محروم ہیں۔ اس غلامی کے عہد میں بلوچ قوم کے لیئے خوشیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، کیونکہ غلام کی عید عیدالفطر و عیدالاضحٰی نہیں بلکہ اُسکی آزادی ہے۔

بلوچ قوم اس دن کو عام دنوں کے طور پر مناتی ہے کیونکہ غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ان کے پیارے غائب کردیئے گئے ہیں۔ ہزاروں بلوچ فرزندان اس جرم کی پاداش میں ٹارچر سیلوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں، ہزاروں شہید کردیئے گئے ہیں، ہزاروں خاندان در بدر کی زندگی گذارہے ہیں۔ تو ان غلامی اور کرب ناک دنوں میں بلوچ عید منائیں تو کیسے اور کس کے ساتھ منائیں؟ بلوچ کی عید دنیا کے دیگر غلام قوموں کی طرح پریس کلبوں کے سامنے احتجاج میں گذر جاتی ہے۔ اسکی مثال عید کے پہلے دن کراچی پریس کلب کے سامنے 8 سال قبل لاپتہ ہونے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ان کے فیملی کی طرف سے لگائی جانے والی بھوک ہڑتالی کیمپ ہے۔ جب اس کیمپ کو لگایا جارہا تھا تو پریس کلب کے سیکورٹی گارڈ نے کہا کہ آج عید کا دن ہے آپ لوگ کیمپ کل لگادو آج کے دن دوستوں یاروں اور رشتے داروں سے ملو اور اس پل کو انجوائے کرکے کل کیمپ لگادو، یہ بات سن کر ذہن میں خیال آیا کہ کونسے دوست و رشتے دار، یہی جنہیں آپ کے ریاستی اداروں نے غائب کردیا ہے یا وہ دوست ویار جنہیں آپکے اداروں نے شہید کرکے لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا ہے، یا وہ رشتے دار جن کے گھروں کو جلا کر انہیں در بدر کی زندگی گذارنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ کیسے عید مناسکتا ہے وہ بیٹا جس کا بابا 3 سالوں سے غائب ہے۔ بلوچ قوم کے لیئے ویسے تو ہر دن ماتم کا دن ہے لیکن عید کے لمحات میں یہ درد اور بڑھ جاتا ہے کہ کب ہمارے پیارے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔

ہزاروں بلوچ فرزندوں نے قوم کے بہتر مستقبل کے لیئے اور اس کربناک دور کو ختم کرنے کے لیئے پر امن سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تاکہ دنیا کے دیگر اقوام کی طرح آزادی اور خوشی سے زندگی اور عید کے پرمسرت لمحات کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرسکیں لیکن اپنے فطری حق کے جدوجہد کی پاداش میں لاپتہ کردیئے گئے، اب تک ان کا کچھ پتہ نہیں ان کی بازیابی کے لیئے ان کے اہل خانہ کبھی کراچی پریس کلب کبھی اسلام آباد اور کبھی کوئٹہ میں پریس کانفرنس اور مظاہرے کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں، اور کبھی بھوک ہڑتالی کیمپ کے ذریعے اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کی جدوجہد کررہی ہیں۔

‎زاہد بلوچ، ذاکر جان، شبیر بلوچ ،مشتاق بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ فرزندان ریاست کی کال کوٹھڑیوں میں بند ہے۔ رضا جہانگیر، شکور، امیرالملک، حق نواز، بالاچ مری ،غلام محمد، امداد بلوچ ،کمبر چاکر،اُستاد علی جان،پروفیسر صبا دشتیاری سمیت ہزاروں کی تعداد میں نوجوان شہید کردیئے گئے، تو اس ماتمی ماحول میں بلوچ قوم کیسے عید منائیں؟ عید کے لمحات کو بچے بڑوں سے بھی زیادہ انجوائے کرتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں،عید کی باتیں کرتے ہیں، بڑوں سے عیدی لیکر انجوائے کرتے ہیں ،اور اپنے گھر والوں کے ساتھ تفریح مقامات پر بھرپور مزہ لوٹتے ہیں لیکن غلامی کے ماحول میں بلوچ بچے اور بچیوں کی عید کیسے کرب ناک حالت میں گذرتی ہے اس کا اندازہ وہی انسان کرسکتا ہے جو ظالم کے غضبناک ظلم کا شکار ہوا ہے .سمی بلوچ، مہلب بلوچ، حیدر علی، کمسن کمبر و دودااس انتظار میں بیھٹے ہوئے ہیں کہ کب ان کے بابا آئیں گے اور وہ عید کے یہ بھرپور لمحات اپنے گھر والوں کے ساتھ منائیں گے ۔ بلوچ شہدا کی خاندان کا عید صرف اور صرف بلوچ قوم کی آزادی ہے ۔ جب بلوچ قوم آزاد ہوکر اپنی سر زمین کا مالک خود ہوگی اُس دن اُسکی عید ہوگی۔ اپنے عید جسے خوشیاں اور مسرتیں لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم متحد ہو ں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔