برزکوہی کے جواب میں – سمیر جیئند بلوچ

505

برزکوہی کے جواب میں

تحریر: سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس موضوع پر میرے کالم نگار دوست برز کوہی نے یقیناً اپنا قومی، سیاسی، سماجی الغرض ہر طریقے سے حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں وہ قابل ستائش ہیں۔ تاہم میرے ناقص رائے میں فدائی منصب کے بارے جو انہوں نے لکھا وہ شاید اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے یا میں لکھوں بھی تو بھی الفاظ کم پڑینگے کیونکہ انہوں نے مادر وطن کی حفاظت اور بلوچ قوم کی سر بلندی کیلئے جس طریقے سے دشمن کے تمام حفاظتی حصار توڑ کر تین اور بلوچ قومی سپوتوں کے ساتھ دشمن کے بل میں گھس کر انھیں سبق سکھائی شاید رہتی دنیا تک سرمایہ دار ریاستیں سرمایہ لگانے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہونگے کہ کہیں ہماری حشر بھی گوادر بندر گاہ میں سرمایہ لگانے والے چینیوں کی طرح نہ ہوجائے۔

یہ کالم کا ایک رخ یعنی مثبت پہلو تھا جبکہ کالم کا دوسرا رخ منفی سوچ پر مبنی ہے، جس میں کالم نگار نے جس سطحی سوچ سے واقعہ بیان کرکے ایک سرمچار ( ایک نہیں بلکہ پوری سرمچاروں)کی توہین کی ہے وہ یقیناً انسانی اقدار سے نابلدی یالفظ سرمچار کی معنی سے بیگانگی یا روگردانی کے ہی زمرے میں آئے گا۔ جو بھی صورت ہو انتہائی افسوس ناک پہلو تصور ہوگا۔ انکے الفاظ انہیں کے زبانی”ایک دفعہ ایک دوست بتا رہاتھا کہ ایک بندہ انتہائی پر اعتماد،مطمیئن بہت تیزی سے جارہاتھا، اس سے میں نے کہا تھوڑی دیر صبر کرلو، بیٹھو،ہمارے ساتھ چائے پی لو،اس نے انتہائی پر امید اور پر اعتماد انداز میں جواب دیا کہ میں بہت مصروف ہوں، تحریک کے کاموں سے جارہاہوں، پھر پتہ چلا وہ کسی کیمپ نمک پہنچا رہا تھا، ابھی علم و شعور کے سطح کے مطابق وہ اپنے اس حصے کے معمولی کام پر بھی مطمیئن اور خوش تھا، لیکن ہمارے ذہن میں یہ کام مطمیئن کن قومی ذمہ داری نہیں ہے۔“ اگر یہاں برزکوہی کا کہنا کہ ”ہمارے ذہن میں یہ کام مطمیئن کن قومی ذمہ داری نہیں ہے“ تو کیا یہ بات کہنے سے کوئی کالم نگار کے خیالات سے اتفاق کرے گا؟ اگر جواب مثبت ہے تو وہ یہ بتا سکیں گے کہ ہاتھی اور چیونٹی دونوں جاندارنہیں ہیں قدرت نے دونوں کوایک ہی قسم کی جان نہیں بخشی ہے۔ اگر جان ایک ہی قسم کی ہے تو سوال یہاں یہ پیدا ہوتی ہے کہ قدرت نے ہاتھی اور چیونٹی کے ڈھانچے اسی مطابق پھر کیوں نہیں سوچا؟ حالانکہ ہاتھی بڑی ہے اس کے باوجود چیونٹی کو کیوں زندگی دی گئی۔ اگر قدرت ہمارے زاویہ نظر سے سوچتا تو یقیناً نہ صرف چیونٹی بلکہ دیگر لاکھوں حشرات کو زندگی نہیں بخشتی۔

تقریباً ایک ہفتے قبل کسی کامریڈ ساتھی نے ایک دانشور کی ویڈیو بھیجی، جس میں جاندار (ساہ) کے بابت ہم جیسے کم علم رکھنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس میں واضح پیغام بھی یہی تھا کہ اگر انسان اپنے آپ کو کائنات کے دیگر جانداروں سے ممتاز رکھتی ہے تو وہ غلطی پر ہے، اگر انسان ہی سب کچھ ہوتا تو قدرت کائنات میں چرند اور پرند کیوں تخلیق کرتا؟ حقیقت میں انسان سمیت ان جانداروں کی تخلیق کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کیونکہ ان کے بغیر کائنات ادھوری رہ جاتی، بلکہ کائنات تخلیق ہوتے ہی فنا ہوجاتی۔ لہٰذا کائنات کی بقاء بھی اسی میں تھی کہ تمام جاندار ایک دوسرے کے سپورٹ اور کمک ہی سے ایک دوسرے کو زندہ رکھیں گے، اور اسی فلسفہ پر عمل پیرا ہوکر ہی جاندار کائنات میں پیدا کیئے گئے، پھرہر ایک نے اپنی اپنی بقاء کی جنگ لڑنا شروع کردیا، جس نے جیتا وہ سکندر ہوئے تاہم جس نے جنگ ہاری وہی کائنات سے مٹ گئے (ڈائنوسار اپنے وجود کو دنیا میں برقرار نہ رکھ سکے، انتہائی طاقتور ہونے باوجود مٹ گیا)۔مطلب یہ ہوا جو جہاں ہے جس حال میں ہے وہ کائنات میں اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے سرانجام دیکر اپنے حصے کا فرض نبھا رہاہے، اگر ہاتھی بڑاہے تو اپنے حصے کا اور چیونٹی جسامت میں چھوٹا ہے تو وہ اپنی حیثیت مطابق فرائض نبھا رہی ہے، ان میں سے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔

ٹھیک اسی طرح اس مثال کو ہم سامنے رکھ کر سوچیں تو کسی بھی سرمچار کو کسی سرمچار پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے چاہے کوئی سینکڑوں دشمن کے فوجی مارے یا اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو نمک پہنچا کر انھیں توانائی بخشے، دونوں قابل ستائش اور برابر ہیں۔ جس طرح انسان، ہاتھی، چیونٹی اورلاکھوں حشرات کو قدرت نے ایک ہی قسم کی جان بخشی۔ تو اسی طرح ایک سرمچار دشمن کو مار کر اپنے قوم اور سرزمین کو بچانا چاہتی ہے تو دوسرا بھی ٹھیک اسی طرح نمک یا دیگر خوراک پہنچا کر اپنے کامریڈوں کو نئی توانائی اور زندگی بخشتی ہے تاکہ وہ توانا ہوکر وہی کام کریں جو انکے رفقاء نے کی ہے۔

جب بات نمک کی ہے تو برز کوہی صاحب آپ دور مت جائیں اپنے ہی ان کامریڈوں سے مل کر نمک کی اہمیت کے بارے میں جان کاری حاصل کریں، جن کی زندگیاں صرف نمک ہی نے لوٹا دیں تھیں۔ مختصر قصہ یہ تھا کہ پندرہ بیس ساتھی جن میں بلوچ سرمچاروں کے رہنما بھی شامل تھے، ایک آپریشن میں عدم خوراک خصوصاً جسم میں نمک کی کمی کے سبب انتہائی کھٹن مرحلے سے گذر رہے تھے کہ ایک ساتھی نے نمک کی جگہ شورہ والی مٹی دیکھ کر تمام ساتھیوں کو چاٹنے کو کہا، جس کے بعد وہ تمام ساتھی جن کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی نے اپنے آپ کو موت کے منہ سے بچالیا،اور اس کے بعد ان ساتھیوں کا جن جن دوستوں سے پالا پڑا انھوں نے یہی مشورہ دی کہ ہر سرمچار کے پاس بھلے خوراک نہ ہو لیکن ایک چٹکی نمک ہونا لازمی ہے اور آج تک شاید کوئی بدقسمت ہی ہوگا جس کے پاس ایک چمچہ نمک نہیں ہوگا۔

برز کوہی آپ اتفاق کریں یا نہ کریں بلوچ جہد ہو یا دنیا کی اور تحریک اس میں کردار چھوٹا ہو یا بڑا تحریک کو آکسیجن دینے کے مترادف ہوتی ہے، اور یہ بات یاد رکھیں سرمچار بقول بجار بلوچ تین اقسام کی ہوتی ہیں ایک وہ جو پوری زندگی قومی کاز کیلئے وقف کرے، دوسرا وہ جو قومی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو کام بھی نمٹاتا رہے جسے”حشر کار“ کا نام دیا گیا ہے اور تیسرا کمک کار ہے جو کبھی کبھار تحریک میں اپنا حصہ ڈال دیتاہے، کبھی راہ بھٹکے بھوکے پیاسے سرمچاروں کو پانی پلاتا ہے تو کبھی سیدھی راہ دکھاتاہے کہ یہ ہے اور جہاں آپ جارہے ہیں وہاں دشمن مورچہ سنبھالے بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں اقسام قابل محترم اور جہد کو آکسیجن پہنچاکر تحریک کو توانا کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔