اسد محراب – سلمان حمل

377

اسد محراب

سلمان حمل 

دی بلوچستان پوسٹ 

تاریخ کا یہ سفر نہ جانے کتنے پُرمھر ساتھیوں سے روشناس کرے گا۔ اور ان کی مھر کے سائے تلے چند لمحے گذارنے کو ملیں گے۔ جو آگے چل کر اس تاریخی سفر میں تاریخی کردار کے طور پر اُبھریں گے، اور رہتے دنیا تک مظلوموں کے دلوں پہ راج کرینگے ۔ ایسے عہد ساز شخصیت بلوچوں کی تاریخ میں ہزاروں کی تعداد میں دستیاب ہونگے، جنہوں نے حاکم اور محکوم کے درمیان کھینچے لکیر کو مٹانے کیلئے اپنے آپ کو تاریخ میں امر کیا۔ مجید اول سے لے کر زرپہازوں تک ہزاروں ایسے عشاقِ وطن ملیں گے جنہوں نے عشقِ زمیں پر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ عظیم ہیں وہ مائیں جن کی شکم سے عہد ساز شخصیتوں نے جنم لیا۔ ان عہد ساز شخصیتوں میں سے ایک فدائی اسد مھراب بھی ہے۔

اسد مھراب سے میرے قریبی تعلقات تھے، جو اس تحریکی سفر میں مجھ سے قریب رہا۔ جب اسد کے بابت کچھ لکھنے کی کوشش کی تو ایسا لگ رہا ہے کہ میرے الفاظ اسد کے کردار کے سامنے اشکبار ہیں کہ وہ اسد کی کردار پر پورا اُتر نہیں سکتے۔

دو ہزار تیرہ سے لے کر اپنے شھادت تک اسد ایک سپاھی تھے، ایسے سپاھی جس نے رختِ سفر باندھ لیئے تھے اور اپنی منزل کی جانب محو سفر تھے۔ تمام مشکلات مصائب اور پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رہے۔ اسد میں وہ تمام گوریلا صلاحیتیں تھیں جو ایک گوریلا جنگجو کیلیۓ لازمی قرار دیئے جاتے ہیں۔ اسد ان تمام صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اسد نے کبھی بھی اصولوں پر سودا بازی نہیں کی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ جنگ اگر ہمیں لڑنا ہے اور اسے کامیابی سے منزلِ مقصود تک پہنچانا ہے تو ہمیں جنگی اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں روایات سے زیادہ علم و دانش کی ضرورت ہے، جو بلوچ نوجوانوں کو جنگی تکنیک سے روشناس کرے اور سیاسی داؤ پیچ کے ساتھ ساتھ جنگی داؤ پیچ پر بلوچ کو دسترس رس ہو۔ اسد اگرچہ چی گویرا، عمرمختار، نیلسن منڈیلا سے واقف تھے۔ مگر اکثر وہ مثال اپنے ہی انمول ہیروؤں کا دیا کرتے تھے۔ وہ “خیر بخش مری” کے اس قول کا حوالہ دیتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس کرتے تھے کہ “بلوچوں کو دن میں ایک عام آدمی کی طرح زندگی گذارنا چاہیئے اور رات کو دشمن پر قہر بن کر حملہ کرنا چاہیئے” ۔

اسد اکثر اوقات جب اپنے فرائض انجام دینے کے بعد آرام کیلئے جاتے تھے، تو وہ بلوچ فنکاروں کی انقلابی گیت اور شاعروں کی اشعار سُنا کرتے تھے۔ اسد سے جب آخری بار رابطہ ہوا تو وہ انتہائی معصومانہ لہجے سے بات کررہے تھے ۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ تحریک اور تحریکی مفادات پر بات کررہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس بار انتہاء کے مطمئن ہیں۔ اور جب بی ایل اے کی جانب ساتھیوں کی آخری ٹیلیفونک بات چیت کو شائع کیا تو اسد کی گفتگو میں وہی اطمینان تھا۔ جو میں نے اس سے قبل آخری ٹیلیفونک بات چیت میں محسوس کی۔ اسد اپنے دیگر ساتھیوں سمیت تاریخ رقم کر بیٹھے اور امر ہوگئے۔ ان کا شمار ان خاک نشینوں میں ہوگا کہ جنہوں سب کچھ زمین کیلئے قربان کردیا اور ان تمام منفی ہتھکنڈوں کو زیر کیا۔

اسد جان مجھے فخر ہے کہ چھ سال میں نے آپکی سنگتی کے سائے تلے گُذارے اور یہی چھ سال میرے لیئے زندگی کے انمول دن تھے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔