اتحاد، محکوم اقوام کی قومی ضرورت
شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مظلوموں کی تقسیم کا فائدہ ہمیشہ ظالم و استحصال کار اٹھاتے ہیں جبکہ نقصان صرف محکوم و مظلوم کے حصے میں آتا ہے۔
“تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی اپنا کر نوآبادکار نے غلام اقوام کو ایک ایسی صورتحال میں دھکیل دیا ہے جہاں وہ نوآبادیاتی نظام کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ایک دوسرے میں الجھے رہتے ہیں۔ بلوچ و پشتون کی مثال واضح مثال ہے، دونوں نے نوآبادیاتی نظام کو ایندھن فراہم کرتے ہوئے ذرا بھی یہ خیال نہیں کیا کہ ایک دوسرے کے خلاف جس نفرت کا پرچار کیا جارہا ہے اس سے نہ ہی بلوچ کو کوئی فائدہ ہوگا نا ہی پشتون سارے سیاہ و سفید کا مالک بنے گا۔
دونوں برادر اقوام کے تاریخی رشتے کو جس طرح شاؤنزم طرز فکر سے تار تار کیا گیا، وہ نہایت افسوسناک عمل ہے، جس پر بلوچ اور پشتون سیاسی کارکنوں کو نہ صرف سوچنا چاہیئے بلکہ مستقبل میں ایسے نقصاندہ سوچ کا حصہ بننے سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچ اور پشتون کا دشمن ایک ہے اور تاریخی طور پر دیکھا جائے بھی دونوں اقوام نے ایک طویل دورانیئے کے ساتھ گذارا ہے اور آج تک بلوچ کے مفاد کو پشتون سے یا پشتون کے مفاد کو بلوچ سے نقصان نہیں پہنچا بلکہ دونوں کو نقصان پہنچانے والا قبضہ گیر ریاست ہے، جس نے نہ صرف غلام رکھا ہے بلکہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے کے لیئے باقاعدہ گراؤنڈ تیار کیا، ایسے میں وہ پارٹیاں جنہوں نے دونوں اطراف سے نفرت پھیلانے میں کردار ادا کیا، ان کی تمام کوششیں کسی صورت بھی مظلوموں کے حقوق کے لیئے نہیں تھیں بلکہ ذاتی و گروہی مفادات کے لیئے چند سیٹیں حاصل کرنے کا ذریعہ تھیں۔ ان پارٹیوں نے بلوچ و پشتون کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے دو مظلوموں کو ظالم کے خلاف متحد کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے لڑنے کی سازش کی اور یہ نہایت ہی غیرذمہ دارانہ کردار تھا۔
میں یہاں بہ حیثیت ایک ادنیٰ بلوچ کارکن بلوچ کی وکالت نہیں کرونگا اور نا ہی پشتون کے خلاف لکھونگا کیونکہ میرا پیغام یہی ہے کہ بلوچ و پشتون دو فریق نہیں بلکہ قبضہ گیریت کے خلاف ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمیں کسی بھی مقام پر شاؤنزم کا شکار ہونے کی بجائے انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ و درد کو اپنا سمجھ کر ایک دوسرے کی جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا کیونکہ یہ جدوجہد نسلوں کے لیئے ہے اور آنے والی نسلوں کو اگر ہم باہمی نفرت کے بجائے انسانیت کی بقاء کے لیئے مشترکہ جدوجہد کا پیغام دینگے تب یہاں کوئی بھی مکروہ طاقت اپنے مفادات کی جنگ کے لیے نسلوں کو نہیں اجاڑ سکے گا۔
مشر محمود خان اچکزئی صاحب نے بلوچ مسنگ پرسنز کی مسخ شدہ لاشوں پر کہا تھا کہ ہم کیوں آواز اٹھائیں لیکن وہ شاید بھول گئے کہ بلوچ ان کا دشمن نہیں بلکہ ان ہی کی طرح ایک محکوم قوم ہے اور شاید جس صورتحال کا سامنا بلوچ کررہا ہے کل کو یہی صورتحال پشتون پر بھی آئے لیکن آج کم از کم بلوچ یہ غلطی نہ کرے کہ وہ خود کو پشتون قوم کے تکلیف سے غافل کرے بلکہ ہر سطح پر ہر طرح سے مکمل طور پر پشتون تحافذ موومنٹ کی مکمل عملی و اخلاقی حمایت کریں اور کسی بھی سطح پر نفرت کا پرچار کرنے سے گریز کریں۔ بلوچ و پشتون کے درمیان جو مسائل ہیں وہ انہیں بہ احسن طریقے سے حل کرسکتے ہیں لیکن اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نوآبادیاتی نظام ہے جو دونوں کے لیے سردرد بنا ہوا ہے۔
بلوچ نیشنلسٹ قوتیں ہر سطح پر پی ٹی ایم کی حمایت کریں اور بیرون ممالک ان کے احتجاجوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔ اس وقت شعور کا تقاضا یہی ہے کہ مظلوم و محکوم اقوام آپس میں اتحاد قائم کریں اور یہی اتحاد ہی ہمیں نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔