اب یہ رعایت ختم ہونی چاہیئے – سیم زہری

300

اب یہ رعایت ختم ہونی چاہیئے

تحریر: سیم زہری

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں زہری بازار میں ایک نوجوان جو بظاہر کسی دور دراز علاقے سے سفر کرکے آیا تھا. زہری بازار میں اپنی سواری مرمت کرنے کی غرض سے کسی گیراج پر رکا ہوا تھا. ایسے لگتا تھا وہ راستے میں اپنی سواری سے گر کر زخمی ہوا تھا. اس کے ہتھیلیوں اور گھٹنوں پر چوٹیں آئیں تھیں اور چہرے سے تھکان چھلک رہی تھی. شکل سے وہ ایک عام بلوچ جو اسی علاقے یا آس پاس کے قریبی کسی گاؤں کا باشندہ لگتا تھا. نہ شکل سے کوئی غیر ملکی لگتا تھا نہ ہی زبان سے ازبکی، عربی، پشتو بولتا تھا.

اپنی سواری کی درستگی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا کہ سول کپڑوں میں ملبوس علاقائی لیویز کے چند اہلکار آئے ان کو بازوؤں سے جکڑ لیا اور تلاشی شروع کردی. جب نوجوان مسافر نے بھانپ لیا کہ یہ مجھے گرفتار کرنے والے ہیں. نہ جانے اس کے بعد کیا ہوگا. دیگر ہزاروں لاپتہ بلوچوں کی طرح میں بھی گمنام کوٹھڑیوں میں سسک سسک کر موت کی دعا مانگنے لگوں گا. اسی خیال نے اس کے اوسان خطا کردیئے. اچانک سے بول پڑا بھائی مجھے ایک گولی مار دو لیکن کسی دشمن کے حوالے مت کرو. اپنی کوئی بندوق ہی دے دو میں دشمن کے ٹارچر سیلوں میں اذیت ناک زندگی سے پہلے اپنے زندگی کا خاتمہ کردوں.

لیکن دشمن کے ظالم اہلکاروں نے ان کی ایک بھی نہ سنی اور انہیں اٹھا کر زہری لیویز تھانہ لے گئے. رات کو دو گاڑیاں انجیرہ کی طرف زہری آئے اور لیویز تھانے کا رُخ کردیا. کچھ دیر کے بعد اسی گرفتار نوجوان کو آنکھوں پر پٹی باندھے اٹھا کر اپنی گاڑی میں پھینک دیا اور واپس چلے گئے.

زہری جیسے چھوٹے علاقے میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ رئیس ڈاکٹر حضور بخش کے بیٹے لیویز اہلکار رئیس ریاض نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر دشمن کے لیئے خدمت گذاری کی ہے اور لیویز اسٹاف نے دشمن کو خبر دے کر نوجوانوں کو راتوں رات بغیر ایف آئی آر بغیر عدالت میں پیش کیئے گمشدہ کردیا.

ہزاروں بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی اور ویرانوں اجتماعی قبروں سے لاشوں کی برآمدگی کا خوف بلوچستان کے طول و عرض میں پہلے سے پھیلا ہوا ہے تو زہری بھی اسی خوف کی آما جگا ہے. علاقہ مکینوں کو جب یہ دردناک خبر ملی کہ علاقائی لیویز فورس نے رات کے اندھیرے میں اس نوجوان کو دشمن فوج کے حوالے کیا ہے تو لیویز کی اس شرمناک حرکت پر نفرت کا اظہار کیا گیا اور دل ہی دل میں یہی خواہش رکھی گئی کہ لیویز کے ان اہلکاروں کو ضرور نشانہ بنایا جائے، جو دشمن کے کام کو آسان کرنے، بلوچ نوجوانوں کو نیست و نابود کرنے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں.

کل زہری چمروک ہوٹل پر بیٹھے خوش گپیؤں میں مشغول لیویز اہلکار عطاء اللہ تراسانی پر حملہ ہوا اور اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی. اپنے قبولیتی بیان میں بی ایل اے کے ترجمان نے کہا کہ گذشتہ بیس سالہ جنگ کے دوران بھی اگر کوئی دوست دشمن کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہے تو پھر یہ ایک دانستہ عمل ہے، جس کا براہ راست فائدہ دشمن کو ہو رہا ہے. ان کا کہنا تھا کہ آج تک ہم نے بلوچ قومی مفادات کو مد نظر رکھ کر مقامی لیویز اور پولیس کو بلوچ سمجھ کر کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے نقصانات سے بچنے کی انتہائی کوشش کی ہے لیکن اگر سلسلہ یہی رہا تو آئندہ مقامی لیویز کو بطور دشمن ادارہ ٹارگٹ کریں گے.

حقیقت میں دیکھا جائے تو بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے جس دور اندیشی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کے برعکس ہمارے لوگ (مقامی پولیس، لیویز، مقامی مخبر اور علاقائی معتبرین) دشمن کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنتے رہے ہیں. جہاں تک بی ایل اے کی تنبیہہ کا جائزہ لیا جائے تو خضدار میں لیویز اتنا کام کرتی ہے کہ جس سے دشمن فوج اور لیویز میں فرق کرنا بھی دشوار ہو جاتا ہے. اگر یہی سلسلہ زہری میں شروع ہو جاتا ہے تو فوج کو خرچہ کرنے نفری بڑھانے، مخبر پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی (جیسے پنجابی فوج چھاونیوں میں بیٹھی ہوئی ہے اور وزیرستان مردان مانسہرہ پشاور کے پشتون ان کی جنگ لڑ رہے ہیں) یہی کام زہری میں شھید سفر کے بعد زرکزئی معتبرین نے سنبھالا ہوا تھا کہ ہم آپ کی فوج کی جگہ وہی کام کریں گے تو ملیشیا کیمپ بنانے نفری پہنچانے پھر اس کی حفاظت کرنے کی نوبت ہی نہ آئے گی. ہم جو موجود ہیں. اب لیویز بھی یہی کام بخوبی نبھا رہی ہے.

بی ایل اے کب تک اجتناب کرے گی کل رات لیویز اہلکار عطاء اللہ کے ساتھ میر شاہ بیگ خان کا بیٹا خان جان بھی بیٹھا ہوا تھا جو (باپ بیٹے) زہری میں پنجابی فوج کے سب سے زیادہ منظور نظر افراد ہیں. دو ہزار سترہ کے مردم شماری کے دوران ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فوجی اہلکاروں کو پکنک کرواتے رہے، ان کی خدمت کی آہ و بھگت کرتے ہوئے پورے علاقے کو انکے سامنے طشت ازبام کردیا بلکہ ایک لحاظ سے فوج کی حفاظت کرتے رہے. کیا کل رات والے حملے میں میر خان جان ایک حدف نہیں تھا۔

جس دن لیویز اہلکاروں نے رئیس ریاض ولد ڈاکٹر حضور بخش کے ساتھ ملکر بلوچ نوجوان کو گرفتار کیا، اسی دن عبداللہ آزاد کے بھائی سردار عطاء اللہ ولد دین محمد نے اپنے احوالِ زہری کے پیج سے یہ خبر تو جاری کردی کہ زہری بازار سے ایک شخص گرفتار کیا گیا ہے لیکن اس کے بعد اس نوجوان کو عدالت میں پیش کیا گیا. کیا اس نوجوان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کی گئی. کیا ابھی اس کے متعلق سردار عطاء اللہ ولد دین محمد نے اپنے صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی کہ وہ گرفتار نوجوان کہاں اور کس حال میں ہے. جبکہ دوسری جانب کل رات لیویز اہلکار عطاء اللہ تراسانی پر حملے کی باقاعدہ مذمت کی بلکہ جھوٹ پر مبنی اپنے تئیں زرکزئیوں کے نام ایڈٹ کر کر کے مذمتی بیانات چلانے شروع کردیئے. کیا یہ لوگ بیس سالہ جنگ سے واقف نہیں ہیں. ہزاروں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں سے بیگانہ ہیں؟ اگر واقف ہیں تو پھر دانستہ طور پر ایسی حرکتیں کرکے دشمن کا کام کیوں آسان کرتے ہیں.

دشمن نے بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرنے، ٹارچر کرنے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے علاوہ بستیوں کو ویران کردیا. گھر جلائے بوڑھے والدین کو قتل کردیا، عورتیں گرفتار کرکے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا. کسی بلوچ نوجوان کا مسلح تنظیم سے تعلق ظاہر ہونے پر اس کے والد کو ٹارگٹ بنایا گیا تو ایسی حرکتیں کرنے کے بعد کوئی لیویز اہلکار فرار ہو جاتا ہے یا اپنا ٹرانسفر کسی دوسرے محفوظ علاقے میں کرواتا ہے تو اس کے خاندان کو یہ رعایت کیوں دی جاتی ہے؟ کسی مخبر کا خاندان (جو اپنے بیٹے، بھائی یا شوہر کی کمائی (جو دشمن کی خدمت گذاری میں حاصل ہوتی ہے) سے عیاشی کرتا ہے تو پھر ان کو یہ رعایت کیونکر حاصل ہے کہ وہ بلوچ دشمنی کرنے کے باوجود بھی اسی علاقے میں زند گذران کر رہے ہوتے ہیں.

اب یہ رعایت ختم ہونی چاہیئے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔