یہ خاموشی کہاں تک؟
حاجی حیدر
(مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی)
دی بلوچستان پوسٹ
ہمدردی انسان کو انسان سے ہو تو قابلِ تحسین، لیکن ہمدردی جو انسان سے اس کی تکلیف کو کو دیکھ کر کی جائے، ناقابلِ برداشت۔ گونگا مقہور، مغلوب بلوچستان میں بولنے کی اجازت کہاں؟ اس لیے یہاں ہر ایک کا کردار بولنے لگتا ہے۔
گذشتہ تین ماہ سے درجنوں طلباء اور طالبات اغوا کیئے گئے ہیں جو کہ بذاتِ خود کسی سانحے سے کم نہیں۔ یہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دوسرے انسانی حقوق کے اداروں کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بقول ایک بلوچ ماں کے، خدارا ہم اپنے پیاروں کو لاپتہ کرنے کے لیئے نہیں پڑھاتے ہیں، ہماری تعلیمی درس گاہوں کو لاپتہ مارکیٹس نہ بنایا جائے۔
بلوچستان میں تعلیمی اداروں میں تقریب، فنکشن اور اسٹڈی سرکلوں پر پابندی لگانا کیا ثابت کرتا ہے۔ دراصل اس طرح کے اعمال واضح طور پر اس چیز کا ثبوت ہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کو روکنے کا مطلب ہے، مجموعی طور پر ان کے آبائی علاقوں میں انہیں محدود کرنا، باہر کی دنیا کے علم سے بے خبر رکھنا۔ جو دماغ یا آواز نہ رکھتے ہوں۔ وہ دراصل ہمیں گونگا اور خاموش دیکھنا چاہتے ہیں۔
فیروز اور جمیل بلوچ کی گمشدگی کی خبر نے مجھے یہ مختصر تحریر لکھنے مجبور کیا کہ بقول فیض احمد فیض
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
اس طرح بلوچ اسٹوڈنٹس کو اغوا کرنا یقیناً کسی سانحے سے کم نہیں۔ اس طرح کے اقدامات کا یہ پہلا کیس نہیں ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے یہ سلسلہ ایک اچھی خاصی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اس طرح ان کے دلوں میں خوف پیدا کرنا ہے تاکہ انہیں اپنے گھروں یعنی (مقامی اضلاع) اور دور دراز علاقوں میں تعلیم کے حصول سے روکا جا سکے۔
دوسری طرف ہمارے قائدین اس بڑے سانحے، منصوبہ بندی سے بالکل بے خبر اپنے اندرونی سیاسی صورت اور ایک دوسرے کے ٹویٹ اور جوابی ٹویٹ اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے سے نہیں تھکتے۔ ہمیں اب ہوش کے ناخن لے کر اس صورت حال کو روکنا ہو گا۔
بقول ایک بلوچ لکھاری کے، “ہمارے سماج نے بڑی مشکل سے بندوق سے قلم کا سفر طے کیا ہے، اب ہم اسے واپس کسی بھی صورت اسی ڈگر نہیں لے جانے دیں گے۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔