یونان کی روشنی اور ہم
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک دانشور نے کہا کہ “باقی اقوام نے خدا، دیوتا، مذاہب اور عبادات ایجاد کیئے جبکہ یونان نے صرف انسان کو تخلیق کیا۔”
یونان خواہ وہ سائنسی فلاسفرز کی صورت میں ہوں، جنہوں نے جدید کیمسٹری کے لیئے “اٹامک تھیوری” 440 قبل از مسیح میں پیش کیا۔ دیما قریطس و لوسی پس جنہوں نے مادے کے بنیادی ذرے کو ایٹم قرار دیا تھا۔ پھر بعد میں کلاسیکل فلاسفی کا عروج جہاں مشہور زمانہ فلاسفر سقراط نے انسان کو سوچنے کی دعوت دی۔ یونانی کسی بھی تصوراتی الجھن میں الجھے بغیر فطرت کو سمجھنے کی کوششوں میں رہتے تھے، ان کی کاوشوں کی روشنی فلسفہ و سائنس کی بہت سی جہتوں میں نسل انسانی کو آگے بڑھنے میں مددگار ثابت ہوئی۔
یونانی تہذیب ہر حوالے سے ثمر سے بھرپور تھا۔ شہری ریاستیں جنہیں “پولس” کا نام دیا گیا تھا جو بعد میں “پولیٹکس” یعنی سیاست کا باقاعدہ شعبہ بن گیا۔
افلاطون نے 158 پولس کے قوانین کا مطالعہ کیا تھا، اس کے بقول کسی بھی پولس کے لیے 100 سے 200 افراد کم جبکہ 10000 سے اوپر کی گنتی زیادہ ہے۔ شہری ریاستوں کا قیام آبادی اور ان سے جڑے مسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھنا تھا۔
پولس کی ساخت یوں تھی کہ وہ درسگاہ سے لے کر عوامی مسائل سب کا درجہ رکھتی تھی اور اسی انتظامی صورت نے یونان کو ایک الگ مقام حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سقراط ایک سحر انگیز فلاسفر تھا جو ہر طرح کے سوالات اٹھانے کی جرت رکھتا تھا، اسی لیئے اشرافیہ کی نظروں میں کھٹکتا تھا کیونکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس کے تعلیمات کا قائل تھے۔ اس کے سرکلز سے افلاطون جیسا ایک ہونہار فلسفی بھی ابھرا جس نے ریاست کے حوالے سے سیر افزاء تخلیق کی۔ افلاطون کے تصوراتی ریاست کو اشرافی کمیونزم کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ افلاطون کے بعد ارسطو نے حیاتیات کے شعبے میں کافی حد تک کام کیا اور اسے باقاعدہ بابائے بیالوجی کہا جاتا ہے۔
یہ سارے ذہن اداروں کا نچوڑ تھے اور اداروں نے ہی یونان کو انسان اور فطرت کے درمیان ربط قائم رکھنے میں کامیابی عطا کی لیکن یہ اس قدر آسان نہیں تھا بلکہ اس کے لیے ابتداء سقراط کو زہر کے پیالہ سے کرنا پڑا۔ اس نے سچائی کے لیے زہر کا پیالہ پیا اور پھر اس کے کاروان میں سچائی کے علم برادار بڑھتے گئے۔ یونانیوں نے انسانی وجود کی حقیقت کو مابعدالطبعیاتی قوتوں کی عینک سے دیکھنے کی بجائے اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے انسان کو عقائد سے بالاتر ہوکر سوچھنے کا حوصلہ بخشا۔ انسانی مسئلوں کا حل انسانی ذہن میں تلاش کرتے ہوئے وہ کبھی بھٹکنے کی کوشش میں راہ فرار اختیار نہیں کرتے۔
سقراط نے درس دیا کہ “میں یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔” تب اس کشمکش میں ذہن انسانی جت گیا کہ وہ کیا ہے جو ہم نہیں جانتے۔ عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے ہنر سے آشنا ہوکر انسان نے بہت سے اہم معاملات میں پیش رفت حاصل کی اور بہت سے ایجادات بھی کیئے۔
یونان کی روشنیوں سے بھرپور تاریخ کا مطالعہ ہر سیاسی کارکن کے لیے لازمی ہے نا صرف یونان بلکہ دنیا کی دیگر تمام تہذیبوں کے عروج و زوال کے تاریخی عمل کا مطالعہ ضروری ہے۔ یونان شاید اس لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کی سوچ انسان کو بھٹکنے نہیں دیتی۔
آج ہم ایک تجزیہ اپنے سماج کا کریں جہاں نوآبادیاتی نظام نے ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو بنجر بنانے کے لیے کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ فریرے کے الفاظ مستعار لیئے جائیں تو “بنکنگ طرز تعلیم” کے ذریعے ذہنی طور پر اپاہج کیا جارہا ہے۔ فرسودہ نصاب جس میں کاپی پیسٹ اور جھوٹی تاریخ سے لے کر عقیدت پرستی بھری ہوئی ہے ایسے میں تمام بلوچ نوجوانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ خود بھی مطالعہ کی عادت اپنائیں اور اپنے ارد گرد بھی مطالعہ کے لیے ماحول کو جنم دیں۔ چھوٹی چھوٹی سرکلز میں ڈسکشنز کریں اور اس کو علم میں اضافے کا ذریعہ بنائیں۔ انقلابی تحریکوں کا سب سے بڑا ثمر یہی ہوتا ہے کہ وہ سماج میں جمود کو توڑ کر ایک نئے انسان کی تخلیق کرتی ہیں۔ بلوچ قومی تحریک نے مطالعہ کے رجحان میں کافی اضافہ کیا ہے لیکن اس کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا معاشرہ بھی ایک مثالی معاشرہ بن سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔