کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

106

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ 3578 دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے سیاسی و سماجی کارکن ہوتک بلوچ، رحمت بلوچ، کوئٹہ سے وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنما ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر اور سماجی کارکن سعدیہ بلوچ سمیت دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ہمیں تحفے میں نہیں بلکہ قربانیوں سے ملا ہے پاکستانی حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ اس ملک میں کس کی حکمرانی اور حاکمیت ہے۔ پاکستانی دانشور خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان نہ صرف معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے بلکہ یہاں اخلاقی اور معاشرتی اخلاقیات کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا اسلام کا نام لیکر بلوچ خواتین و بچوں کو تشدد اور جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کے علاوہ مذہبی شدت پسند بلوچستان میں خواتین کو تیزاب پاشی کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ آج یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ ان مذہبی شدت پسندوں کی پشت پناہی کونسی قوتیں کررہی ہے۔

دریں اثنا وی بی ایم پی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ایک غیر سیاسی تنظیم ہے، جو ملکی قوانین کے تحت لاپتہ افراد کی بازیابی، جبری گمشیدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے خلاف اپنا پر امن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وی بی ایم پی نے دوسرے تنظیموں کے کاموں میں مداخلت کی ہے اور نہ ہی دوسرے تنظیموں کے پلیٹ فارم کو آج تک استمعال کیا ہے۔ وی بی ایم پی دوسرے تنظیموں سے بھی یہی امید رکھتا ہے کہ وہ بھی تنظیم میں مداخلت نہیں کرینگے اور یہ کہ تنظیم کا کوئی عہدیدار سیاسی بیان نہیں دیگا اور نہ ہی سیاسی وابستگی رکھے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آگر تنظیم کا کوئی عہدیدار سیاسی بیان دیگا یا کوئی سیاسی وابستگی رکھے گا تو تنظیم کے آئین کے مطابق اس کا عہدہ غیر فعل ہوگا۔