کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے احتجاج جاری

211

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3603 دن مکمل ہوگئے۔ پسنی سے سیاسی و سماجی کارکن غفور بلوچ، نذیر بلوچ جبکہ بی ایس او کے سابقہ چیئرمین مہیم خان بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

بی ایس او کے سابقہ چیئرمین مہیم خان بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائی گئی ہے۔ پریس کلب کے سامنے ہمارے خواتین آکر بیٹھتے ہیں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حکومت اس حوالے سے مکمل آگاہ ہے جبکہ اسمبلی میں بھی آواز بلند کی گئی ہے لہٰذا اس مسئلے کو اہمیت دی جائے اور بڑے پیمانے پر حکومت اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے۔

انہوں نے کہا لاپتہ کیئے گئے افراد کو رہا کیا جائے اگر ان پر کوئی جرم ہے تو قانونی طور پر عدالت میں پیش کیا جائے اگر حکومت اس طرح کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہونگی کہ بلوچستان میں نہ آئین کا احترام ہے اور نہ ہی آئین وجود رکھتی ہے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی جانب جاری کاروائیاں پوری شدت کےسات جاری ہے، مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن اور غیر قانونی گرفتاریاں اور قتل کے واقعات نے بلوچستان میں ایک خوف کی فضا کو جنم دیا ہے جس نے ہر طبقہ فکر کو سخت ذہنی دباوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست مارو اور پھینکو کے پالیسی کے تحت نہتےطالبعلم اور سیاسی کارکنان، ادیب، شاعروں، کلا اور ڈاکٹروں سمیت دیگر افراد کی اغوا اور لاپتہ کرنے کے بعد مہینوں اور سالوں اذیت دینے کے بعد گولیوں سے چھلنی لاشیں پہاڑوں ویرانوں میں ملتے ہیں۔