ہزاروں افراد کی گمشدگی ایک تاریخی جبر ہے صحت مند معاشروں میں ایسی بربریت کے خلاف ہم آواز ہوکر بولا جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے آکر حصہ لیا جس میں خواتین و بچے بھی شامل تھے جبکہ اس موقعے پر بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے رہنما بی بی گل بلوچ، طیبہ بلوچ اور کارکنان سمیت سیاسی اور سماجی شعبوں سے تعلق والے افراد بھی موجود تھے۔
وی بی ایم پی کی جانب سے اس حوالے سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ایک غیر سیاسی تنظیم ہے ہماری تنظیم کا تعلق کسی سیاسی گروہ یا کسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے۔ بلوچستان کے وہ وسائل جن کا تعلق انسانی حقوق کے حوالے سے ہے ان کے متعلق پریس رہلیز، رپورٹس، مطالبے اور دیگر مواد شائع کیا جاتا ہے جوکہ پاکستان کے آئین اور عالمی انسانی حقوق کے عین مطابق ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان اور پاکستان و دیگر علاقوں میں ہمیں سرگرمیاں جاری رکھنے نہیں دیا جارہا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ 04 نومبر 2008 کو محمد عارف بنگلزئی ولد قادر ڈنا بنگلزئی کو کلی کمالو سریاب روڈ کوئٹہ سے آدھی رات کو بھاری تعداد میں ایف سی اور خفیہ اداروں و پولیس کی نفری کے ساتھ اٹھاکر لے گئے جو تاحال لاپتہ ہے۔ وی بی ایم پی کے سرگرمیوں کا مقصد ان لوگوں کے حقوق بحال کرنے کی کوشش کرنا ہے جن سے ان کے قانونی حقوق چھینے جارہے ہیں بلوچستان سے پہلے ہی ہزاروں افراد لاپتہ کیے جاچکے ہیں اور ہزاروں مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں یہ سلسلہ کئی سالوں سے چلا آرہا ہے اور اس میں مزید شدت لایا جارہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ گذشتہ دنوں گوادر، نصیر آباد، آواران سے خواتین کو جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ اس سے قبل مشکے سے جبری طور پر لاپتہ خواتین و بچے تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ یہ سلسلہ نیا نہیں ہے کہ رات کی تاریکی میں چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کرکے بلوچستان سے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے خود قانون کے خلاف ورزی کرکے لوگوں کو جبراً لاپتہ کررہے ہیں۔
تنظیم کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ حراست میں لیے گئے مذکورہ افراد کو عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جاتا ہے، ان افراد کے لواحقین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ عدالتیں ان کے پیاروں کو جرم ثابت ہونے پر سزا دیں لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں اپنی صفائی کا موقع دیا جائے۔
بیان میں گیا کہ بلوچستان میں میڈیا، انسانی حقوق کے تنظیموں، لکھاریوں کی خاموشی یہ بات واضح کررہی ہے کہ احتجاجی حوالے سے معاشرہ بے بس ہے۔ ہزاروں افراد کی گمشدگی ایک تاریخی جبر ہے صحت مند معاشروں میں ایسی بربریت کے خلاف ہم آواز ہوکر بولا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جب تک مسئلہ ذاتی نوعیت کا نہ ہو جب تک تکلیف ذات کا نہ کوئی محسوس نہیں کرتا ہے۔
ہم اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ تمام لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔