کاونٹر انسرجنسی اور بلوچ قومی تحریک ۔ شہیک بلوچ

200

کاونٹر انسرجنسی اور بلوچ قومی تحریک

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی ریاست کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو انسرجنسی کہا جاتا ہے جبکہ ریاست کی جانب سے اس انسرجنسی کو ختم کرنے کے عمل کے حوالے سے “کاونٹر انسرجنسی” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

گوریلا وارفیئر ،اریگولر وار فیئر یا چھاپہ مار جنگ خواہ وہ امریکہ کی جنگ آزادی ہو جہاں برطانیہ نے آزادی پسندوں کو وحشی جنگلی قرار دیا تھا کیونکہ ان کا طریقہ کار روایتی جنگی اصولوں کے مکمل برخلاف اور نتائج توقعات کے بالکل برعکس تھے۔ اسی طرح کیوبا میں جدوجہد ہوئی وہ بھی اپنی تکنیکی برتری اور بہترین حکمت عملی باعث کامیاب ہوئی۔ ویتنام تو ایک انمٹ داستان ہے جس کے نتائج نے وائٹ ہاؤس کے اوسان خطا کردیئے۔ پھر یہی طریقہ کار عراق میں اور افغانستان میں بھی دیکھنے کو ملا۔

ایک امریکی ماہر جنگ جنہوں نے “کائونٹر انسرجنسی” پر باقاعدہ پی ایچ ڈی کی ہے انہوں نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انسرجنسی اکثر توقعات کے برعکس ہوتی ہے کیونکہ یہاں آپ کا سامنا ایک چھپے ہوئے قوت سے ہے جو آپ سے مدمقابل ہونے کی بجائے آپ پر اس وقت وار کرتا ہے جب آپ کے گمان میں بھی نہیں ہوتا اور آپ جب تک صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں انسرجنٹ اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکہ جب عراق میں ٹینک لے کر داخل ہوا تب گوریلا حکمت عملی کے سامنے ٹینک بے بس ثابت ہوئے کیونکہ ٹینک روایتی جنگ میں کارآمد ہے، جہاں آپ پیش قدمی کرتے ہیں جبکہ چھاپہ مار جنگ میں آپ کیا پیش قدمی کرینگے جہاں دشمن آپ سے پوشیدہ ہے۔ وہ ایک خوبصورت جملے سے اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ انسرجنسی سے لڑنا ایسا ہے جیسے “چھری کی مدد سے سوپ پینا ہو۔ ”
آخر وہ کیا راز ہے جو انسرجنسی کو ایک آرگنائزڈ فوج پر برتری دلاتی ہے؟

وہ اس کی خود کو اوجھل رکھنے کی طاقت ہے۔ وہ پانی میں مچھلی کی مانند تیرتے ہیں۔ پانی سے مراد عوام۔۔ عوام میں تلاش کرنا اس قدر آسان نہیں۔

اکثر فوجوں کو روایتی جنگ کی تربیت ملتی ہے اور وہ مار اسی لیئے کھاتی ہیں کہ وہ انسرجنسی کو روایتی طور پر نپٹانا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں اس حوالے سے ایک طویل بحث ہوئی کچھ لوگوں نے سمجھا کہ انسرجنسی کی اصطلاح out datedہوچکی ہے اب اس پر بات وقت کا ضیاع ہے لیکن “جون اے نگل” جیسے ماہرین اس بات کے حامی رہے کہ منظم سے منظم افواج کو اگر کہیں منہ کی کھانی پڑی ہے تب وہ انسرجنسی کی صورت میں ہی۔ وہ کہتے ہیں دوسری جنگ عظیم میں اپنی نفسیاتی برتری کا جھنڈا گھاڑنے والی امریکی فوج ویتنام میں شکست کا سامنا کرتے ہوئے نکلتا ہے، اس سے آپ انسرجنسی کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کوئی بھی امریکہ کی فوجی طاقت کا مقابلہ روایتی طور پر نہیں کرنا چاہے گا لیکن انسرجنسی کی صورت میں کوئی بھی طاقت درد سر بن سکتا ہے۔

اب بلوچ انسرجنسی کا ایک جائزہ لیتے ہیں کہ بلوچ انسرجنسی مختلف ادوار میں چار مرتبہ وقتی پسپائی کے بعد پانچویں مرتبہ دوبارہ اٹھی اور اس مرتبہ تنظیمی خدوخال کیساتھ قدرے بہتر طریقے سے آگے بڑھی لیکن اس حوالے سے بہت سے اہم نقاط کو ابتدائی مراحل میں نظر انداز کردیا گیا۔

آج اگر دیکھا جائے تو بلوچ تحریک میں جتنے نقصانات درپیش آئے ان میں ریاست کی کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں کی نسبت تحریک کی اپنی اندرونی غلطیوں کا زیادہ کردار ہے۔

اول تو اس تحریک کو انفرادی بنیادوں کی بجائے ادارتی بنیادوں پر منظم کیا جاتا تاکہ ذاتی خواہشات کی بنیاد پر فیصلے نہ ہوتے اور نا ہی قبائلی مزاج کے مطابق جزا و سزا ہوتی۔

ایک مکمل ڈسپلن جس پر سرکردہ سے لے کر عام کارکن تک کے عمل کرنے کی مکمل دیکھ بال لازمی ہو۔

لیکن گذرتے وقت کیساتھ تنظیموں نے اپنے ابتدائی ڈسپلن تک کو خیرآباد کردیا، وہ روایتی طرز جنگ کی حکمت عملی اختیار کرتے گئے اور جب دشمن نے اپنا وار کیا تو اکثریتی نیٹ ورک ٹوٹ گئے۔ ابتدائی مرحلے میں ہی جس تحریک کو دشمن کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی ضرورت تھی، اسے اس کے سامنے واضح لاکھڑا کردیا گیا اور اس کے لیے کام مزید آسان ہوگیا کیونکہ انسرجنٹ کی بقاء اس کے روپوش رہنے کی صلاحیت میں ہے۔ جب دشمن نے وار کیا تب ہم تیار نہ تھے اور یوں شدید نقصانات اٹھانا پڑے۔ ریاست کی کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں کے مدمقابل بلوچ آزادی پسند تنظیمیں نہایت ہی ناقص پالیسیوں کا شکار رہے اور آہستہ آہستہ صورتحال ایک شدید نفسیاتی بحران کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ کسی بھی واقع پر ریاستی پالیسیوں کو سمجھنے یا اپنی کمزوریوں کا ادراک کرنے کی بجائے جذباتیت کا سہارا لے کر انقلابی اصولوں سے راہ فرار اختیار کیا اور یوں تحریک میں بہتری کی راہوں کو محدود کرلیا گیا۔ کسی واقع پر انکوائری نہیں کی گئی کہ کہاں غفلت برتی گئی یا کہاں سے راز لیک ہوا بلکہ ہیروازم کو پروموٹ کیا گیا۔ رازداری کا یہ عالم کہ اہم باتوں کو مذاق میں اڑاتے ہوئے نہایت غیر سنجیدگی کا اظہار یا پھر سوشل میڈیا پر بہت سے معاملات کی تشہیر۔

اندرونی کمزوریوں نے بلوچ جہدکاروں کو پانی میں تیرتی مچھلیوں کی بجائے زمین پر تڑپتی مچھلی کی بے بس صورتحال تک پہنچا دیا۔ اور آج تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا کہ اس تحریک سے وابستہ جہدکاروں کی حفاظت کو کیسے ممکن بنایا جائے۔ اکثر واقعات میں دشمن کو سافٹ ٹارگٹ ملا ہے جو اس کی دانشمندی نہیں بلکہ تنظیموں کی غفلت کا نتیجہ ہے۔

دوسری جانب عوام کو تحریک سے کاٹنے کے لیئے ڈنڈا سمیت گاجر کا حربہ بھی استعمال کیا گیا۔ ایک جانب خوف تو دوسری جانب لالچ دیا گیا۔ بلوچ تحریک کے خلاف یہیں سے اپنے نمائندے بنا کر انہیں مضبوط کیا گیا اور ان کے خلاف بھی تنظیمیں کوئی موثر کن کردار ادا کرنے میں ناکامی کا شکار رہیں۔

آہستہ آہستہ تحریک کو پردے کے پیچھے دھکیلنے میں کسی حد تک ریاست کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن اس کے لیئے ریاست سے زیادہ بلوچ تنظیموں کی ناقص پالیسیوں کا عمل دخل ہے۔ شفیق مینگل سمیت کافی سماجی مجرم زندہ ہیں جن کو راستے سے ہٹانے میں ناکامی بھی بلوچ تنظیموں کی پالیسیوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

آخری تجزیہ میں آج گوریلا فن و حرب کے بنیادی اصول فراموش ہوچکے ہیں اور اس طرح ہمارا سروائیول بہت مشکل لگتا ہے، کرتے کرتے سرکردہ رہنماؤں سمیت بہت سے جہدکار نشانہ بن گئے کیونکہ کوئی بھی تنظیم جب پالیسیوں سے محروم ہوجائے تب وہ خاموش تماشائی بن کر رہ جاتا ہے۔

آج تک کے جتنے نقصانات ہوئے ہیں اگر ان میں غفلت کی شرح دیکھ لیں 90 فیصد نقصانات کے ذمہ دار خود تنظیموں کی ناقص پالیسیاں ہونگی۔ اگر بدتریج یونہی ہم ناقص پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تب ریاست کے کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں کو ہماری غلطیوں سے ہی شے ملیگا۔

گوریلا جنگ و حرب کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نئی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ ہیروازم کے لیئے کوئی بھی گنجائش نہ رکھتے ہوئے رازداری و سنجیدگی سے تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، تب ہی ریاست کے کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔