ڈیرہ بگٹی سے پشتون مادر وطن تک ۔ شہیک بلوچ

415

ڈیرہ بگٹی سے پشتون مادر وطن تک

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نواب اکبر خان بگٹی بلوچ قوم پرست حلقوں میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے، ان کی سیاست بلوچ قومی حقوق کی سیاست تھی۔ سردار خیربخش مری اور سردار عطااللہ مینگل کے برعکس وہ ریاستی فریم ورک میں حقوق کے حصول پر زیادہ زور دیتے تھے۔ وہ وفاقی وزیر رہ چکے تھے اور گورنر و وزیر اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ چکے تھے۔ انہوں نے ہر طرح سے ممکن کوشش کی کہ مذاکرات کے ذریعے کچھ حقوق حاصل کیئے جائیں۔ ایک مصالحتی کمیٹی بھی بنائی گئی، مشاہد حسین سید اور چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں اور اس سب کا مقصد ایک بڑے فوجی آپریشن کی تیاری تھی، نواب صاحب کے گھر پر گولہ باری کی گئی، یہاں تک کہ ان کے اپنے مہمان خانے میں ان سے چند فٹ کے فاصلے پر ہی گولے گرے۔ اس واقعے کے بعد حالات کو اس طرح بنایا گیا کہ یا تو نواب صاحب اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہوجاتے یا پھر پہاڑوں کا رخ کرتے۔

انہوں نے بلوچ دانشوروں کو بلایا، ان سے مشورہ کیا، سب نے یہی مشورہ دیا کہ جنگ کی صورت میں بہت زیادہ نقصان ہوگا، اس لیئے صلح کرلینے میں بھلائی ہے لیکن صلح کی قیمت حقوق سے دستبرداری کی صورت میں نکلے گی۔ نواب صاحب نے سب کو تسلی سے سنا پھر اپنا حتمی فیصلہ بطور لیڈر سنایا۔ انہوں نے کہا ہمارا سب کچھ ہمارے ہاتھوں سے جارہا ہے، ہمارا ساحل، ہمارے وسائل، اگر ہم ان سے بات کرینگے بھی نتیجہ کچھ نہیں ہوگا۔ وہ مزید دھوکا دینگے اور اگر ہم دستبردار ہوتے ہیں تب بلوچ اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں بدل جائینگے۔ عمر کے اس آخری حصے میں میں اپنے پیشانی پر یہ سیاہی نہیں ملونگا۔

نواب صاحب نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا، اپنے ہی سرزمین پر جب زمین تنگ کردی جاتی ہے، تب پہاڑوں کے آغوش میں بلوچ کردار سکون تلاش کرتے ہیں۔ 26 اگست 2006 کو انہیں ایک فوجی آپریشن میں بمباری کے ذریعے شہید کردیا گیا اور مشرف نے باقاعدہ فوج کو مبارک باد پیش کیا۔ بلوچ قوم بالخصوص بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں پر نواب صاحب کی شہادت ایک گہرے صدمے سے کم نہیں تھا۔ اب بلوچ قوم کو یہ یقین ہوگیا کہ نواب بگٹی کے اعلیٰ بلوچی اقدار کے بدلے ان کیساتھ یہ سلوک کیا گیا کہ ان کی مقفل تابوت کو انتہائی ہتک آمیز طریقے سے دفنایا گیا اور اب بلوچوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہا کہ وہ ریاست کے طاقت کا جواب طاقت سے دیں کیونکہ ریاست نے پچھلے آڑسٹھ سالوں میں بلوچ کے ہر پرامن طریقے کا جواب طاقت سے دیا ہے، اس لیئے اب کوئی اور راستہ باقی نہیں رہا۔ بلوچ مزاحمتی تحریک مزید شدت پکڑتی گئی اور آج مختلف مراحل سے گذر کر اپنے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہیں۔

نواب بگٹی کے واقعے کا پی ٹی ایم کے واقعات سے تال میل اس لیئے بھی ملتا جلتا ہے کیونکہ وہ پرامن طریقے سے جدوجہد کررہے ہیں لیکن جس طریقے سے ان کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، اس سے واضح ہورہا ہے کہ ریاست ان کے لیے پولیٹیکل اسپیس ختم کرتا جارہا ہے۔ اس کا اظہار جنرل آصف غفور نے بھی اپنے پریس کانفرنس میں کیا کہ آپ کا وقت ختم ہوگیا اب۔

حالانکہ چند دن پہلے ہی ایک کمیٹی بنائی گئی جو پی ٹی ایم کے تحفظات کو سننے اور دور کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ سننے سے پہلے ہی پی ٹی ایم کا وقت گذر گیا۔ اس ریاست میں پی ٹی ایم کا وقت آیا ہی کب تھا اور نا ہی کبھی یہ جبری قوتیں آنے دینگی بلکہ یہ پیشہ ور قاتل ہیں، جن کو خون خرابے میں مہارت حاصل ہے اور یہ کسی بھی مظلوم کو امن کیساتھ جینے دینگے یہ خواب اب پشتون بھی دیکھنا چوڑ دیں، یہ نسلیں اجاڑنے والے نسلوں کو سنورتا کہاں دیکھ سکتے ہیں۔ اس ریاست نے کہیں کوئی گنجائش باقی رکھی ہوتی تو پی ٹی ایم نہیں اٹھتی، پی ٹی ایم کا اٹھنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست کا جبر برداشت سے باہر ہوگیا ہے۔

منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے نیشنلسٹ ریاست کو کہاں قبول ہونگے، جو اپنے وطن پر ان کی غلیظ پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہیں، ان کو تو وہ طالبان چاہیئے جو ان کے اثاثے بن کر رہیں، جنہیں جب وہ چاہیں استعمال کریں۔

حالیہ واقعہ جس میں پرامن احتجاجی مظاہرے پر فائرنگ کی گئی اور بیگناہوں کا قتل عام کیا گیا اور پھر اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لیئے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پی ٹی ایم سے نپٹنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جاچکا ہے اور پی ٹی ایم کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کے امکانات بھی زیادہ ہورہے ہیں۔ اس واقعے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر بھی دیکھنا ہوگا کہ ریاست متوقع ردعمل کو بھی جاننا چاہتا تھا، اب دیکھتے ہیں پی ٹی ایم آگے کس طرح بڑھتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔