چین میں مسلمانوں کے روزے رکھنے پر سخت پابندی عائد

468

 چین کے  صوبے سنکیانگ میں حکام نے مسلمانوں کے  روزہ رکھنے پر سخت پابندی عائد کر دی ہے اور ہر ایغور مسلمان گھرانے کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی شخص روزہ نہ رکھے۔ ان احکام کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں ویغور برادری کو اجتماعی سزائیں دئے جانے کا خطرہ ہے۔

اس بات کا انکشاف جلاوطنی اختیار کرنے والے ایغور افراد کی طرف سے قائم کردہ ’ورلڈ ویغور کانگریس‘ نے جرمنی میں موجود اپنے صدر دفتر سے کیا ہے۔

کانگریس کا کہنا ہے کہ مقامی شہریوں اور چینی حکومت کے وفادار ایغور افراد کی بھی سخت نگرانی کی جا رہی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان تمام افراد نے اپنا اسلامی عقیدہ حقیقی معنوں میں ترک کر دیا ہے اور وہ حکومت کے بدستور وفادار ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ داڑھی بڑھانے، حجاب پہننے، نمازیں پڑھنے، روزہ رکھنے اور شراب نوشی کی مخالفت کرنے کو انتہاپسندی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔

’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے نمائندے، ریکسٹ کا کہنا ہے کہ چین بھر میں ویغور طالب علموں کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سکولوں کی کینٹین میں ہفتے میں کم سے کم تین بار دوپہر کے کھانے کیلئے پیش ہوں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں طالب علموں، اُن کے اساتذہ اور والدین کو سزائیں دی جائیں گی یا پھر اُنہیں تربیتی مراکز میں دوبارہ داخل کر دیا جائے گا۔

ریکسٹ کہتے ہیں کہ اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ مزید افراد کو روزہ رکھنے کی صورت میں ان حراستی مراکز میں لے جایا جائے گا جہاں اُن کو اپنے نظریات بدلنے کی تربیت دی جائے گی۔

’آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی‘ کے نیشنل سیکورٹی کالج سے وابستہ ایسو سئیٹ پروفیسر مائیکل کلارک کہتے ہیں کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی منظم نگرانی کوئی نئی بات نہیں اور یہ 2013 سے جاری ہے جس میں مساجد، انفرادی لباس اور لوگوں کے عمومی رویوں کی نگرانی شامل ہے۔

عالمی نشریاتی ادارے  سے اِی میل کے ذریعے رابطہ کرتے ہوئے پروفیسر کلارک کا کہنا تھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے حق میں لوگوں کے نظریات تبدیل کرنے کیلئے اُنہیں حراستی مراکز میں بھرتی کرنے کے اقدامات غیر معینہ مدت تک جاری رہیں گے۔

اُنہوں نے کہا کہ وزارت انصاف کے ماتحت ان حراستی مراکز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ ویغور مسلمانوں کو ان مراکز سے آزاد کرنے کے بجائے اُنہیں دیگر کیمپوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ پروفیسر کلارک نے مشورہ دیا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو اس بارے میں واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کرنا چاہئیے کہ ایسے چینی حراستی مراکز بین الاقوامی برادری کیلئے ناقابل قبول ہیں۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ چین کی اقتصادی اور سٹریٹجک اہمیت کے باعث ایسا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع میں ایشیا پالیسی کے سربراہ، رینڈل شرائیور نے گزشتہ جمعے کے روز چین پر الزام عائد کیا تھا کہ اُس نے ان حراستی مراکز میں موجود ایک کروڑ افراد میں سے دس لاکھ سے تیس لاکھ افراد کو سنکیانگ کی جیلوں میں منتقل کر دیا ہے۔

تاہم، چین نے پیر کے روز کہا کہ رینڈل شرائیور کا یہ بیان چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان، گینگ شوینگ نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ حراستی مراکز کے بجائے پیشہ ورانہ اور تعلیمی تربیت کے مراکز ہیں جنہیں انتہا پسندی کو روکنے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اقدامات چینی قانون کے اندر رہتے ہوئے اختیار کئے جا رہے ہیں جن کی تائید چین میں موجود تمام نسلی گروپ کرتے ہیں اور جن کے مثبت سماجی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔