پہاڑوں کا بیٹا اور دیوانہ اکبر – میرین بلوچ

533

پہاڑوں کا بیٹا اور دیوانہ اکبر

میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اے میرے وطن، اے میرے پیارے وطن، اے میرے سر زمین، کن سنہرے لفظوں سے آپکی تعریف کروں، آپکی بلند و بالا پہاڑوں کی، چمنوں کی، بہتے ہوئے چشموں کی، وسیع میدانوں کی، آپکی دل و جان گوادر کی، سنہرے ساحل و سمندر کی، مکران کے بلند بالا قلعوں کی، سرمچاروں کی جو دشمن کے سامنے ایک چٹان بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اور دشمن کے سامنے لڑ رہے ہیں۔

کن لفظوں سے آپکے بیٹوں کی قربانیوں کا داستان لکھوں کہ آپکے اولادوں نے اس سرڈگار کو خون سے سیراب کیا ہے اور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا ہے، کس کی تعریف کروں، کبھی محراب خان کی شکل میں، کبھی آغا عبدالکریم کی، نوروز و کبھی اکبر بگٹی کی، کبھی بالاچ، کبھی غلامحمد، لالہ منیر و شیرمحمد کی کبھی استاد اسلم کی۔ آپکے لاڈلوں نے ایسی قربانیاں دی ہیں، جو تاریخ بھی بھول نہیں سکتا۔

ہمارے چھوٹے ذہنوں میں ایسے شبد ہی نہیں کہ آپکے بیٹوں کیلئے بیاں کرسکوں، جو تاریخ و دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آپکے لاڈلوں کو سنہرے لفظوں میں یاد کرتے ہیں اور کرتے آ رہے ہیں اور میں پوری زندگی بھر لکھوں تو میرے الفاظ ختم ہو جائیں گے اور جتنا بھی لکھوں اتنا ہی کم۔

اکثر انسان مادر وطن پر کیوں مرتے ہیں؟ اپنے آپ کو، گھر بار، مال مویشی، عزیز واقارب، رشتہ دار، بیوی، بچے، ماں، باپ سب کچھ چھوڑ کر صرف اور صرف اپنی مادر وطن پر مرتے ہیں کیوں؟ دراصل انسان اپنے فرائض کو پورا کرنے کیلئے اپنی جانوں کو قربان کر دیتے ہیں۔ جب مائیں اپنے بیٹوں کیلئے سب کچھ قربان کر دیتے ہیں تو بیٹے کا فرض بنتا ہے کہ اپنے ماں کا فرض ادا کرے۔

پوری دنیا کہتی ہے کہ ہم ہوا اور آدم کے بیٹے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے یہ سوچنا ہے کہ ہوا اور آدم کا وجود کہاں سے آیا اور کس کے اولاد ہیں؟ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ہوا اور آدم کا وجود مٹی سے ہوا، وہی مٹی جو ہمارا سرزمیں ماں ہے، جو ہمارا حقیقی ماں ہے، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنا فرض سر انجام دیں اور آج تک آپکے لاڈلے وہ فرض نبھا رہے ہیں۔

آج میں آپکی ایک لاڈلے کے بارے میں کچھ شبد بیان کر رہا ہوں، لکھتے وقت میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور پورا جسم پسینے سے شرابور ہے۔ اے میرے سرزمین! آج میں کچھ لکھ رہا ہوں اور دل میں ایک ڈر بھی ہے کہ تیرے لاڈلے کی تعریف میں کہیں مجھ سے کوئی کمی نہ آئے۔ مجھے معاف کرنا اگر میرے الفاظ کے تاثیر میں کمی پڑجائے۔

جی ہاں! اکبر جو آپکی گود میں پیدا ہوا اور پہلا قدم آپکی دل و جان بالگتر کی مٹی پر رکھا اور تربیتی تعلیم اچھے استادوں سے حاصل کیا۔ آپ بہت محنتی اور پرجوش طالب علم تھے اور بلوچی کتابوں میں بہت تجربہ تھا اور کچھ عرصے کے بعد BLFکے پیلٹ فارم ست بھرتی ہوئے۔ اکبر کے بجائے آپ مراد میں تبدیل ہو گئے اور آپکی زندگی کی نئی شروعات ہوگئی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد آپ کیمپ کے ڈپٹی کمانڈ نامزد ہوئے، آپ انقلابی نظریئے کےشعور و تعلیمات سے سر شار تھے۔

آپ سے پہلی ملاقات BLF کے کیمپ میں ہوئی۔ آپکا مہر، دوستی و ہمدردی دیکھ کر دل نے نہ کہا کہ اپنے شہر واپس جاوں۔ آپ ایک پرجوش، محنتی اور محب وطن ساتھی تھے اور کیمپ کے ڈپٹی کمانڈ تھے۔ جب میں کیمپ آیا تو سب سے پہلے آپ نے مجھے ایک طرف لے کر کیمپ کے بارے میں ڈسکشن کی اور پورے طور و طریقے سکھائے۔ آج تک میں نے جو کچھ سیکھا آپ سے سیکھا، زندگی بھر میں نہیں بھولوں گا کہ آپ میرے teacher تھے۔ آج تک مجھے سب کچھ یاد ہے، جب میں پوری طرح بیمار تھا تو آپ نے میرا جسطرح خیال رکھا، ایسا میرے سگے بھائی نہ کر پاسکیں۔ کہتے ہیں کہ خونی رشتوں ست زیادہ انقلابی رشتہ پختہ ہوتا ہے، آپ نے اپنے مادر وطن کی دفاع کیلئے کوئی بھی کسر نہ چھوڑا۔

پتہ نہیں کہ میں آپکو کس کا نام دوں، کبھی چی گیویرا کا، کبھی لینن کا، کبھی فینن کا، کبھی مارکس کا، کبھی بھگت سنگھ کا، کبھی چندر کا، کس نام سے پکاروں جو آپ نے پوری زندگی کو بلوچستان کے وادیوں کو اپنا مسکن بناکر گذارا اور آخری گولی اور آخری سانس تک بھی اپنے مادر وطن سے وفادار رہے۔ 2/5/2019جعمرات کے دن کو اپنے مادر وطن کی کوکھ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سو گئے اور زندگی بھر نمیران ہوگئے۔

 

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔