پشتون قیادت وقت و حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے لوگوں کی مستقبل کو محفوظ بنانے کےلئے فیصلے اٹھائیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا رپورٹر کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے ) کے رہنما بشیر زیب بلوچ نے سوشل میڈیا کے ویب سائٹ ٹویئٹر پر آج وزیرستان میں پی ٹی ایم کے کارکنان پر فائرنگ کے واقعے کے حوالے سے اپنے ایک مختصر پیغام میں پشتون قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں (پشتون قیادت) کو اب اس امر کا احساس و ادراک ہونا چاہیے کہ اپنے قوم کے مستقبل کو پاکستان جیسے بدمعاش و قبضہ گیر کی شر و بربریت سے محفوظ رکھنے کے لئے مذمت نہیں بلکہ مزاحمت کی ضرورت ہے ۔
رواں سال پی ٹی ایم کے رہنما ارمان لونی کی بہیمانہ قتل کے واقعے پر بھی بشیر زیب بلوچ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابراہیم ارمان لونی کی پاکستان کی دہشت گرد پولیس کے ہاتھوں بے رحمی سے شہادت پشتون تحریک کے لیے مزید توانائی کا باعث بنے گی۔
پشتون قیادت کو اب اس امر کا احساس و ادراک ہونا چاہیے کہ اپنے قوم کے مستقبل کو پاکستان جیسے بدمعاش و قبضہ گیر کی شر و بربریت سے محفوظ رکھنے کےلئے مذمت نہیں بلکہ مزاحمت کی ضرورت ہے ۔
— Bashir Zeb Baloch (@BashirZeb) May 26, 2019
بی ایل اے رہنما نے کہا تھا کہ قومیں اپنی بقاء اور قومی آزادی کی خاطر لڑنے والے جنگوں اور قربانی سے ختم نہیں ہوئیں ہیں بلکہ اگر قومیں ختم ہوئے ہیں یا مکمل فناء ہوچکے ہیں تو وہ بے حسی خاموشی اور خوف کے وجہ سے ہوئے ہیں۔
واضح رہے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں اس کے رہنماوں اور کارکنوں پر ہونے والی مبینہ فائرنگ کے نتیجہ میں 25 سے زائد کارکن زخمی ہوئیں ہیں۔
سرکاری طور پر اس واقعے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم چار زخمی افراد کو میران شاہ کے اسپتال میں لائے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب زخمیوں کو میران شاہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال لے جانے میں مشکلات کا سامنا ہے اور علاقے میں ٹیلی فون لائنز سمیت دیگر مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دئیے گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر اتوار کی صبح ایک احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لئے قافلے کی صورت میں تحصیل دتہ خیل جا رہے تھے جب قافلہ ‘خڑ کمر’ کی چیک پوسٹ کے قریب پہنچا تو مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز نے انہیں آگے جانے سے روک کر گیٹ بند کر دیا، جس پر لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔
محسن داوڑ کے سیکریٹری رحیم داوڑ نے بتایا کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد اچانک فائرنگ شروع ہو گئی جس سے متعدد کارکن زخمی ہو گئے۔ رحیم داوڑ کے مطابق محسن داوڑ اور علی وزیر کو فائرنگ کے اس واقعے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
فائرنگ کے بعد رکن اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن کی سرکاری سطح پر تاحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔