پروگریسو یوتھ الائنس نے شہید فدا بلوچ کی 31ویں برسی کی مناسبت سے کوئٹہ میٹروپولیٹن کے پارک میں ایک سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا جس میں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء نے شرکت کی۔
اسٹڈی سرکل کا باقاعدہ آغاز باسط خان نے کیا اور مفصل بات کرنے کیلئے بلاول بلوچ کو دعوت دی۔
بلاول بلوچ نے اپنی بات کا آغاز شہید فدا بلوچ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو بلوچستان کی تاریخ میں سیاہ دنوں کی لمبی فہرست ہے جن کی اگر گنتی کی جائے تو بہت کم دن ہی ہونگے جو اس سیاہ فہرست میں نہیں آئیں گے۔ ایک ایسا ہی سیاہ دن 02 مئ 1988 کا بھی ہے جس دن بی ایس او کے چیئرمین شہید فدا کو تربت شہر میں ان کے ایک چھوٹی سی لائبریری جو ان کے معاش کا زریع بھی تھی، میں شہید کردیا گیا. شہید فدا کا شمار بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناہزیشن کے بائیں بازو کے لیڈران میں ہوتا تھا اور فدا بلوچ وہ پہلے لیڈر تھے جنہوں نئے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو پاکستان کے دیگر محکوموں اور محنت کشوں کے ساتھ جوڑنے کی عملی جدوجہد کی اور و ملکی سطح پر بننے والی بائیں بازوں کے طلباء تنظیموں کے الایئنس (پاکستان پروگریسیو یوتھ الاینس ) کے مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں بلوچستان کی قومی آزادی کی تحريک کی قیادت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نوجوانوں کے پاس تھی اور بی ایس او ایک بائیں بازو کی نمائندہ تنظیم کے طور پر جانی جاتی تھی اور انہی نظریات کا اثر ہمیں فدا کی جدوجہد میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے جس کے لیے فدا نے عملی جدوجہد بھی کی تھی۔ بی ایس او کی نظریاتی کمزوری کی وجہ سے اس کے طریقہ کار میں بھی ہمیشہ ایک کمزوری رہی ہے اور وہ کمزوری مسلح جدو جہد کی طرف جھکاؤ تھا۔ اور اسی جھکاؤ کی وجہ سے بی ایس او نے عوامی جدوجہد کی بجائے مسلح جدو جہد کا غلط راستہ بھی اپنا لیا۔ لیکن جہاں مسلح طریقہ کار ایک حاوی رجحان تھا وہیں پر نظریاتی کارکنان کی طرف سے ایک جنگ بھی اس رجحان کے خلاف موجود تھی جس میں فدا شہید صف آول میں موجود تھے ۔ان پر یہ باتت واضح تھی کے مسلح جدوجہد کی غلط طریقہ کار سے سیاسی جدوجہد کو ہی نقصان پہنچے گا اور اس نقصان کا بوجھ آنے والے نسلوں کو اٹھانا ہوگا اور اس کے خلاف شہید فدا نے جو جنگ شروع کی اس میں پہلی بار قومی آزادی کی جنگ کو محنت کش طبقے کے سنگ لڑنے کیلئے نکل پڑے تھے اور سویت یونین طرز کی ریاست کی تشکیل کا خواب دیکھ کر جدوجہد کا میدان گرم کیا۔ عملی طور پر شہید فدا مزدوروں، محنت کشوں اور کسانوں میں موجود تھے۔ آپنے شہادت سے ایک روز قبل شہید فدا تربت شہر میں یوم مزدور کے حوالے سے ایک تقریب میں شریک ہوکر مزدوروں سے خطاب بھی کیاتھا۔
شہید فدا کا تعلق بنیادی طور پر تربت شہر سے تھا انھوں نے اپنی ابتداہی تعلیم تربت گورنمنٹ سکول اور انٹر ڈگری کالحج تربت سے حاصل کی اور اس کے بعد انھوں نے باقی تعلیم کے لیے کراچی کا رخ کیا اور وہی پر ان کا واستہ ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور حلقوں سے پڑا کہ جہاں وہ ترقی پسند سیاست کے ساتھ عملی طور پر منسلک ہوگئے۔
شہید فدا نے قومی سیاست میں طبقاتی تفریق کی ہمیشہ مخالفت کی اور نظریاتی جدوجہد کو ترجیح دی . ان کا ماننا تھا کے قومی جنگ میں قوم کے نواب، سردار، میر اور معتبر ہمیشہ اپنے طبقاتی مفاد کو ہی تحفظ مراہم کرینگے اور ہر قوم کی طرح بلوچ قوم کے اندر بھی شدید طبقاتی تقسیم موجود ہے اور سب سے پہلے اس طبقاتی تقسیم کے خلاف لڑتے ہوئے بلوچ غریب عوام کی آزادی کی جدوجہد کے دوران قومی جنگ کو طبقاتی جنگ کیساتھ منسلک کرنا ہوگا۔ یہ بات اسکے شہادت سے ایک روز قبل تربت کے اندر محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک شاندار تقریب کے انعقاد سے ثابت ہوتا ہے۔ چونکہ تربت کوئی صنعتی شہر نہیں تھا نہ ہی بڑے پیمانے پر مزدور تھے لیکن پر بھی شہید فدا کا مزدور جدوجہد پر یقین اتنا پختا تھا کے انھوں نے اداراتی مزدوروں کسانوں اور کجور کے باغات میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کو جمع کیا اور انھیں یہ احساس دلایا کہ جہاں ہم قومی غلامی کے چکی میں پس رہے ہیں وہیں پر اسی قوم کا بلا دست طبقہ بھی ہمارے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑتھا کیونکہ اس کے مفادات محنت کش طبقہ کے مفادات سے متضاد ہیں۔ اس کے لیے ہم اپنی جنگ کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کر کے ہی اس قومی جبر سے آزادی لے سکتے ہیں۔ بلوچ قومی ازادی کی جدوجہد میں نظریاتی ابہام کی وجہ سے ہمیشہ وہ دھڑے بندی کا شکار ہوتی رہی ہیں اور اس کا اثر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پر تھا جو مختلف اوقات میں کئی دھڑوں میں تقسیم رہی اور آج تو حالت یہ ہیں کہ طلبہ اور نوجوان کم اور دھڑے زیادہ بن چکے ہیں۔ بہر حال شہید فدا نے ان دھڑے بندیوں کے خلاف بھی نا قابل مصالحت جنگ لڑی جس میں انھیں وقتی کامیابی بھی ملی اور انھوں نے 1984 میں بی ایس او کا انضمام کیا اور بی ایس او متحدہ کا قیام عمل میں لایا. شہید فدا نے بی ایس او میں پہلی بار لٹریچر، سٹڈی سرکلز اور بحث و مباحثوں کی بنیاد رکھی اور یہ راویات کافی عرصہ تک قائم بھی رہیں۔ بی ایس او کا پہلا علمی رسالا بنام “پجار” شہید فدا کی محنت سے ممکن ہوا. لیکن جہاں ریاست کے لیے فدا جیسے کیڈرز ایک خطرہ تھے وہاں نام نہاد قومی لیڈران کے لیے بھی فدا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اس کی نظریاتی تعلیمات اور طریقہ کار ایک بہت بڑا خطرہ بن رہی تھی جس کے لیے انھوں نھے فدا جیسے ایک عظیم لیڈر کا راہ سے ہٹانے کا منصوبہ تیار کیا اور 2 مئی 1988 کا وہ منحوس دن تھا جب فدا اپنے چھوٹی سے لائبریری میں موجود لینن کی کتاب سے افتباسات حاصل کر رہا تھا تو دشمنوں نے ان پر بزدالانہ حملہ کرتے ہوئے سہید کردیا اور فدا کو اس کے نظریات کے ساتھ دفن کرنے کی ایک ناکام کوشش کی. فدا بلوچ کے انقلابی نظریات کو قوم پرستی کے دونوں انتہاہوں میں غرق حضرات ہمیشہ آج کی نسل کے نوجوانوں سے کسی بھی طرح سے چپھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایک آدھ فدا کی یاد میں کوئی تعزیتی پروگرام کرتے بھی ہیں تو وہ محض فدا کے شخضیت اور قد کاٹھی پر کرتے ہیں یا پھر فدا کو ایک شدید قسم کا قوم پرست بنا کے پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کی دکانیں چلتی رہیں اور نظریاتی شعور لئے نوجوان ان کی موقع پرستی اور نظریاتی زوال پر سوال نہ اٹھائیں۔ لیکن ہم فدا کے بائیں بازو کی نظریات کو نہ صرف اپناتے ہیں بلکہ ان حقیقی نظریات کو بلوچ نوجوانوں اور محنت کشوں کیساتھ تمام مزدور طبقے تک پہنچانے کی جدوجہد کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہاں موجود خامیوں اور خوبیوں کو بھی واضح کرتے ہیں تاکہ اصل سائنسی نظریات اور طریقہ کار کو سامنے لاکر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیز کیا جا سکے۔
چونکہ معروضی حالات کے مطابق شہید فدا میں نظریاتی کمزوریا بھی موجود تھی لیکن ایک دوستانہ اختلاف کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ہم فدا کی جدوجہد اور اس کی نظریات کا دفاع بھی کرتے ہیں جس طرح “چی گویرا” اور “فیڈل کاسترو” کی جدوجہد کو ان میں موجود نظریات اور طریقہ کار کی کمی بیشی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے بالکل اس طرح تناظر کیساتھ فدا اور حمید پر کی جدوجہد کو بھی سمجھا جاسکتا ہے اور آج کی نسل کو اس کے سنہرے تاریخ سے اشنا کرنا ہمارا فرص ہے۔
آج کا عہد اس عہد سے یکسر مختلف ہے جہاں سویت یونین کے انہدام نے زوال پزیر سٹالنزم کو ماضی کے کچرے دان میں پھینک دیا وہی پر آج ایک نئے عہد نے نوجوانوں کو ایک نئے درست نظریہ اور طریقہ کار کی طرف مائل کرنا بھی شروع کردیا ہے۔ شہید فدا کے جدوجہد سے اسباق حاصل کرتے ہوئے آج ان کی جدوجہد کو ایک بلند پیمانے پر دھرانے کی ضرورت ہے اور جو نعرہ شہید فدا نے اتحاد اور جدوجہد آخری فتح تک کا لگایا تھا اسے ایک عملی جامعہ پہناتے ہوئے ہم اپنی جنگ کو دیگر مظلوموں اور محنت کش طبقے کے ساتھ جھوڑ کر اس ظلم، بربریت، خون ریزی، بھوک، ننگ، افلاس اور غربت سے پاک سوشلسٹ سماج کو تعمیر کرسکتے ہیں۔
اسی طرح سٹڈی سرکل کا پہلا حصہ اختتام کو پہنچا اس کے بعد رزاق غورزنگ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے ساٹھ اور ستر کی دہائی کی سیاست اور عالمی صورتحال پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی عالمی سیاست میں ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہے اس وقت پوری دنیا انقلابات کی زد میں تھی۔ نہ صرف فرانس میکسیکو امریکا، بلکہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کہ کئ ممالک میں انقلابی تحریکیں دیکھنے کو نظر آئیں۔
رزاق غورزنگ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ شہید فدا بلوچ بھی اسی انقلابی عہد کے ایک انقلابی کردار ہیں اور ہم نے تاریخ سے سیکھتے ہوئے شہید فدا بلوچ کے ترقی پسند نظریات کو اپنے اندر سمیٹ کر آگے کی جانب بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ اور تاریخی کرداروں کو رومانوی اور عقیدوی انداز میں لینے کے بجائے سائنسی انداز میں سمجھنا ہوگا۔
اس کے بعد اسٹڈی سرکل میں موجود دوستوں کے سوالات کے جوابات بلاول بلوچ نے دیے اور سٹڈی سرکل کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔