ٹیکنالوجی اور ہمارا مستقبل – شاہزیب فضل بلوچ

521

ٹیکنالوجی اور ہمارا مستقبل

شاہزیب فضل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کرتا ہوں، کیونکہ میرے پیدائش کے پانچ سال بعد میرے چھوٹے سے، پسماندہ اور خوبصورت گاؤں میں اکیسویں صدی کی ایک اہم ایجاد “بجلی” پہنچ گئی تھی، اور اپنے ساتھ نئی دنیا کے کچھ ایسے ایجادات بھی ساتھ لے کر آگئی تھی جو ایک نومولود یا کمسن بچے کو اس کے نسل در نسل سے چلی آرہی تعلیم و تربیت، ثقافت اور تاریخ سے دور رکھ سکے، یعنی ٹیلی ویژن، موبائل فون وغیرہ. میں اپنے آپ کو خوش قسمت اس لیئے تصور کرتا ہوں کیونکہ پانچ سال تک میں نے اپنے نسل در نسل سے چلی آرہی تعلیمات میں سے اتنا تو سیکھ لیا ہے کہ میں اس کو اپنے آنے والے نسل تک پہنچا سکوں اور اس کڑی کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری نبھا سکوں۔

ہمارے زمانے میں آنے والی ایجادات میں اتنی تو رعایت تھی کہ ہم دوسرے تعلیم و تربیت پر توجہ دے سکیں، جس میں کھیلنا کودنا، دوستوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذارنا، والدین اور فیملی کے ساتھ وقت گذارنا، اپنے دادا دادی یا نانا نانی کے پاس بیٹھ کر اپنے آبا و اجداد کے بہادری کے کارنامے سننا، کبھی کسی پریوں کے شہر کی سیر کرنا، اپنے قومی و راجی کارکنوں اور بہادروں کے قصّے سننا وغیرہ. بظاہر تو یہ سب کہانیاں ہیں. عجب نہیں کہ آپ کو یہ سب بیکار چیزیں لگیں لیکن انہی کہانیوں کی بدولت ایک بچہ وسیع چیزیں سوچنے لگتا ہے اور اس کے ذہن کو وسعت ملتی ہے، وہ اپنے ثقافت کو سمجھ لیتا ہے، اپنی تاریخ کو جان لیتا ہے۔

گذشتہ کچھ سالوں سے ہمارے ملک اور پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کا عظیم انقلاب آیا ہے. نئی نئی ایجادات سامنے آگئی ہیں، جس سے میں بہت سے کام سہل اور آسان ہوگئے ہیں لیکن ان ایجادات کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ مثبت اثرات سے وہ لوگ استفادہ ہوئے جنہوں نے ان ایجادات کا صحیح استعمال کیا لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک میں ان ایجادات کو زیادہ تر منفی طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔

ان عجیب و غریب اور حیران کن ایجادات میں سے ایک “ٹیب” کہلاتی ہے، جو موبائل فون سے کچھ بڑی اسکرین پر مشتمل ایک آلہ ہے جس سے بہت سے اچھے کام ہو سکتے ہیں۔ کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں یہ آلہ ہر پانچ سال سے کم اور زیادہ عمر کے بچوں کے ہاتھوں میں پایا جاتا ہے، جسے والدین اپنے بچوں کو نئی دنیا سے روشناس کروانے کے نام پر دیتے ہیں لیکن جب یہ آلہ ایک کمسن اور نادان بچے یا بچی کے ہاتھ میں لگ جاتا ہے تو یہ ایک قید خانے کی مانند بن جاتا ہے جس میں بچہ چوبیس گھنٹے ویڈیو گیمز اور بہت سارے ناسور قسم کی چیزوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

پانچ سال سے کم اور زیادہ کی عمر وہ عمر ہوتی ہے جہاں پر ایک بچے کے لیئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے والدین اور بزرگوں کے ساتھ گذارے جو اس کے بہتر تعلیم و تربیت کے ضامن ہوتے ہیں. گھر ایک بچے کے لیئے اس کے پہلے اسکول کی مانند ہوتا ہے، جہاں پر اسے سماج کے مختلف پہلوؤں سے آشنا کیا جاتا ہے۔ اسے دوسروں کے ساتھ اچھے سلوک و برتاؤ نیک کام کرنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق دیا جاتا ہے. اسے معاشرے کے مدوجزر سے آشنا کیا جاتا ہے. اسے نسلوں سے چلی آئی روایات، رسم و رواج اور ثقافت سکھائی جاتی ہے. گھر اور اس کے افراد وہ استاد ہوتے ہیں جو ایک بچے کو سماجی اور مذہبی تعلیمات سے آراستہ کرتے ہیں، اچھے اور برے کے درمیان فرق سمجھاتے ہیں لیکن ان سب تعلیمات کو ایک آلہ اتنی بےدردی اور بےرحمی سے تباہ کرتا ہے کہ وہ اپنے سماجی حقائق کو سمجھنے بغیر ہی پروان چڑھتا ہے.

ایک بچہ اپنے دن کا نصف سے زائد حصہ ایک آٹھ انچ کے اسکرین پر گذار کر زندگی کے سب سے اہم ماہ و سال زوال کر دیتا ہے، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور علاقے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ وقت گذار کر زندگی کے سب سے خوبصورت اور اہم تجربات کرتا ہے، لوگوں کے ساتھ وقت گذار کر مختلف انسانی رویوں اور عادات و اطوار سے روشناس ہوجاتا ہے۔

آس آلے کو ایک کمسن بچے کے ہاتھ میں دے کر ہم نہ صرف اس کو جسمانی نقصان دیتے ہیں بلکہ کچھ ایسے علمی اور شعوری نقصانات بھی دیتے ہیں جس کا ازالہ پوری زندگی تک ممکن نہیں. لہٰذا ہمیں اپنے کمسن بچوں کو ایسے آلات سے خاص طور پر اس عمر میں دور رکھنا چاہیئے ان کی علم اور کتابوں تک رسائی ممکن بنانا چاہیئے کیونکہ یہی وہ بنیادی دور ہے جہاں سے ہم اپنے بچوں کی تربیت کر کے انہیں معاشرے اور قوم کے لئے عظیم انسان بناتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔