بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے مسلح افواج کے اہلکاروں نے گذشتہ رات نصیر آباد کے علاقے ربی میں شے حق بگٹی کے گھر پر چھاپہ مار کر گھر میں موجود چار خواتین اور پانچ بچوں کو اغوا کے بعد نصیر آباد کیمپ منتقل کردیا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے شے حق بگٹی کے گھر پر چھاپے کے دوران گھر میں کوئی مرد موجود نہیں تھا جبکہ گھر میں موجود دیگر افراد کو فورسز کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے ہیں جن کی شناخت دھنڈو زوجہ کریم بگٹی، شوزان زوجہ شے حق بگٹی، بجاری زوجہ شے حق، پاتی بنت کریم بگٹی، آٹھ سالہ جمیل ولد کریم بگٹی، بٹے خان ولد شے حق عمر چھ سال، زرگل زوجہ شے حق، تین سالہ آمنہ بنت شے حق اورنوربانک بنت شے حق کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اغوا ہونے والے تمام خواتین و بچے بگٹی قبیلے کی زیلی شاخ شالوانی کے راہتانی ٹکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
شیر محمد بگٹی کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں جس طرح خواتین کو اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا ذمہ دار ریاست اور اس کے عسکری ادارے ہونگے کیونکہ بلوچ سماج میں خواتین انتہائی اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
انہوں نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں خواتین کے اغوا پر وہ اپنی خاموشی توڑتے ہوئے آواز اٹھائیں۔
یاد رہے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ لاپتہ افراد کے فہرست میں خواتین و بچوں کے نام بھی شامل ہے۔ گذشتہ دنوں ضلع آواران سے پاکستانی فورسز نے دوران آپریشن 3 خواتین اور 4 بچوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا تھا جنہیں بعد میں رہا کردیا گیا۔
اسی طرح گذشتہ سال کے وسط میں ضلع آواران کے علاقے مشکے میں خواتین و بچوں کے جبری گمشدگی کا واقعہ پیش آیا جس کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھے لاپتہ ہونیوالے خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون زیبا بلوچ کہنا ہے کہ میری والدہ نورملک، بہن حسینہ اور ثمینہ کو دس سالہ بھائی ضمیر کے ہمراہ پاکستانی فورسز نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہیں۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماوں نے گذشتہ مہینے اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 2017 سے بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگی میں تیزی لائی گئی ہے۔ مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔ جنوری 2018میں مشکے، راغے اور گچک سے کئی خواتین کو فوجی آپریشن میں لاپتہ کرکے آرمی کیمپ منتقل کیا گیا ۔ اسی دوران ناز گل نامی خاتون دوران حراست ہلاک ہوگئی۔ جون 2018میں ناگ، مشکے اور جھاؤ سے کئی خواتین لاپتہ کیئے گئے جن میں کچھ کو چھوڑ دیا گیا اور کئی اب تک لاپتہ ہیں۔ نورملک جن کو جولائی 2018میں دو بیٹیوں سمیت کیمپ منتقل کردیا گیا جن کے بارے میں آج تک کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے اس کے علاوہ گریشہ سے عدیلہ نامی بلوچ خاتون کو بچوں سمیت اٹھاکر لاپتہ کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہے۔